جنگِ نبود و بود ہے، سانس کا زیر و بم نہیں

مجھ کو سنبھالتا ہے یہ، میرا بدن بھی کم نہیں

دشتِ الم کے اْس طرف تیری صدا سنائی دے

تجھ کو پہونچوں کس طرح، آہوئے دل میں رم نہیں

جن کے بدن فنا ہوئے اْن کو دوام مل گیا

دستِ اجل میں خاک ہے دستِ اجل میں ہم نہیں

اجرتِ غم وصول ہو، کلفتِ دل حصول ہو

تاکہ جنوں قبول ہو، گریہ خواب تھم نہیں

سب کے لباس پر یہاں پھینکی گئیں سیاہیاں

قریہء  بے امان میں کوئی بھی محترم نہیں

جام و سبو کی خیر ہو، نعرہء ہْو کی خیر ہو

ذوقِ نمو کی خیر ہو، کشتِ بدن میں نم نہیں

اسودی حیرتوں نے یوں، آنکھیں مری نچوڑ لیں

ایک بھی آئینے کا اب، باقی رہا بھرم نہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے