دیار چاکر! مرید ہوں میں

مرید جس نے صداقتوں کے عَلَم اٹھائے

مرید جس نے محبتوں کے ستم اٹھائے

مرید جس نے لہو سے اپنے روایتوں کے درخت اگائے

مرید جس نے اداس آنکھوں میں غم چھپائے

فریب کھائے

دیارِ چاکر!مرید جس نے بہار لمحوں کے گیت گائے

مرید جس نے کمال نغمات گنگنائے

کمال یادوں کے غم اٹھائے

کمال داغوں کے گل کِھلائے

دیارِ چاکر!مرید جس نے تمہاری گلیوں میں سَنگ کھائے

مرید جس نے ستم اٹھائے

 

دیارِ چاکر! اداس حانی؟

مرید جس کو اداس شرطوں میں ہار آیا

اداس حانی؟

مرید جس کو ہزار قسطوں میں بانٹ آیا

بتاؤ کتنی اداس قسطوں میں جی رہی ہے؟

 

غیور چاکر کا حال کیا ہے؟

بتا کہ جاڑو کی سیہ داڑھی میں بال کتنے سفید آئے؟

بتا کہ ھیبو کے اونٹ واپس پَلٹ گئے یا انہیں چراگاہیں چَر گئی ہیں؟

بتا کہ سیوی کے محل میں اک اداس حانی ہمارا اب تک بھی پوچھتی ہے؟

دیارِ چاکر! مرید کا پوچھتی ہے اب تک؟

 

مرید جس کو عجیب شرطوں میں ہار آیا

مرید جس کو ہزار قسطوں میں بانٹ آیا

دیار چاکر!تمہاری گلیوں میں یہ بگولوں کا رقص کیسا؟

ہر ایک چوکھٹ کے پَٹ کھلے کیوں؟

ہر ایک در پر اداسیوں کی یہ دْھول کیسی جمی ہوئی ہے؟

دیارِ چاکر! ترے محل کے مہیب کنگروں میں کَرگسوں کے یہ غول کیسے؟

وہ کویلوں کی اداس تانیں کہاں گئیں ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے