دن چڑھے تو مصوری کیا کر

شام ڈھلتے ہی شاعری کیا کر

زخم بھرنے میں دیر لگتی ہے

دھیرے دھیرے رفو گری کیاکر

زخم اوروں کے اپنے تن ۰پہ لگا

اتنا کارِ پیمبری کیا کر

کوئی ہمسر نہیں ملے گا یہاں

مت کسی کی برابری کیا کر

عشق بھی ہوچکا جدائی بھی

رات دن اب سخنوزی کیا کر

وہ درِ یار ہو کہ بابِ حرم

گاہے گاہے گدا گری کیا کر

عشق کا حق بھی ہے حسینوں کو

حسن والوں سے دلبری کیا کر

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے