جھوٹ پھیلا رہے ہیں سارے لوگ

ذہن کے مسئلوں کے مارے لوگ

 

میز پر تبصرے ہی کرتے تھے

کتنی آسان جنگ ہارے لوگ

 

وہ کہیں لامکاں نہ ہو صاحب

لاپتا ہیں جہاں ہمارے لوگ

 

جسم کے زاویے سمجھتے ہیں

اس زمانے میں اب کنوارے لوگ

 

رت جگوں سے وہ بھاگ نکلے تھے

نیند کی تیغ نے جو مارے لوگ

 

کتنے بچے یتیم کر گیا وہ

اپنے بچوں پہ جس نے وارے لوگ

 

گر رہے ہیں فلک کی جانب روز

اس زمیں کے حسین تارے لوگ

 

جنگ پہ کاروبار کرتے ہیں

کچھ تمہارے تو کچھ ہمارے لوگ

 

کر رہے ہیں عجیب نظروں سے

آسماں کی طرف اشارے لوگ

0Shares
2 thoughts on “غزل ۔۔۔ اسحاق وردگ”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے