سنگت کے لیے ایک خصوصی غزل۔۔۔

نئے سال میں نیک تمناؤں کے ساتھ

 

 

حشرکی چال چل رہا ہے وقت

ہاتھ سے اب نکل رہا ہے وقت

کیا کسی کو ذرا بھی ہے احساس

کتنی تیزی سے ڈھل رہا ہے وقت

قتل گاہوں سے لاش اٹھاتے ہوئے

خون چہرے پہ مَل رہا ہے وقت

لوگ پتھرا گئے ہیں باہر سے

اور اندر پگھل رہا ہے وقت

تیری آنکھوں سے بہہ رہے ہیں دُکھ

میرے اشکوں میں جَل رہا ہے وقت

ٍلوگ غافل پڑے ہوئے ہیں مرے

اور سب کو نگل رہا ہے وقت

اب نہ معیادِ ظلم گھٹتی ہے

اور نہ ٹالے سے ٹل رہا ہے وقت

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے