سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ علمی نشست پوہ و زانت کا انعقاد اتوار29دسمبر2019ء کی صبح گیارہ بجے ہوا۔اجلاس کی صدارت مرکزی  سیکریٹری جنرل پروفیسر جاوید اختر نے کی۔اعزازی مہمان ڈپٹی سیکریٹری ڈاکٹر عطااللہ بزنجو تھے۔ نظامت کے فرائض چیئرپرسن پوہ زانت نجیب سائر نے ادا کیے۔

                 اس نشست میں ایک افسانہ اور ایک مضمون پیش ہوا۔بلوچستان کے معروف افسانہ نگارقاضی شہزادالحق نے اپنا افسانہ ”تہی دامن“ برائے تنقید پڑھ کر سنایا۔جس کے بعد سامعین نے ان کے افسانے پہ رائے دی۔ پروفیسر ڈاکٹر ساجد بزدارنے افسانہ نگار کو خوب داد دی۔ کہا کہ واقعات کو خوبصورت انداز میں ٹریٹ کیا گیاہے۔جس طرح ماحول اور چیزوں کو لیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔لیکن ایک اختلاف یہ ہے کہ آپ نے ایک آئیڈیل سچوئیشن پیش کیا ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ انسان کو فرشتہ نہ بنائیں بلکہ اسے انسان ہی رہنے دیں۔مزید کہا کہ ہمارے دفتری نظام کے بارے میں سب کو علم ہے، اس لیے دفتر کی باتوں کو طول نہ دیتے تو بہتر تھا۔

                وحید زہیر نے کہ جب تخلیق کار نے بتایا وہ روایت سے ہٹ کر کچھ پیش کر رہا ہے تو میں خوش ہوا کہ ان کے افسانے میں انوکھی بات ہوگی، غیر روایتی افسانہ ہوگا مگر افسانہ سننے کے بعد ایسا کچھ نہ تھا۔لڑکی پہلی ملاقات میں کہہ دیتی کہ اسے کس مسئلے کا سامنا ہے اور پھر سوال اٹھتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی کا سودا کیوں کیا۔ اس بارے میں افسانہ میں کوئی وضاحت نہیں۔ایک نقطہ یہ ہوسکتا تھا کہ ماہ پارہ اور محراب کے درمیاں محبت ہوتی پھر بات آگے بڑھ جاتی۔البتہ یہ ایک خوبصورت افسانہ ہے اور عنوان بھی خوبصورت ہے۔

                ڈاکٹرمحمد صدیق آفتاب کا کہنا تھا کہ کچھ چیزوں کو ایڈریس کرنا چاہیے تھا۔ افسانہ نگار نے 25سال بعد طبع آزمائی کی ہے۔یہ ایک خوبصورت اضافہ ہے۔

                ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو نے سوال اٹھایا کہ دونوں کرداروں نے ایک ہی لمحے میں ایک دوسرے سے کو چاہا حالانکہ وہ اُن کی پہلی اورآخری ملاقات تھی۔اس کے بعد ملے نہیں۔بہرحال سسپنس کا افسانے کے آخر میں پتا چل گیا۔

                ڈاکٹر منیر رئیسانی نے کہا کہ خوشی اس بات کی ہے کہ قاضی صاحب نے ایک طویل عرصہ بعد لکھناشروع کیا۔ انہوں نے سیف الدین سیف کا شعر سنایا؛

سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے

 ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

                مجھے افسانہ نگاری میں جزئیات نگاری بہت پسند ہے اور افسانہ میں خوبصورتی اسی سبب آتی ہے۔ شہزادالحق نے اس کا بہت خیال رکھا ہے جیسے سینڈل کا ٹوٹنا اور گھسنا وغیرہ۔افسانے میں بعض چیزوں کو مختصر ہونا چاہیے تھا۔میر ؔ کا شعر سنایا؛

روز آنے پہ نہیں نسبت عشقی موقوف

عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے

                اس موقع پر ساجد بزدار نے امجد اسلام امجد کی ایک نظم کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رومان کی دنیا صدیوں پہ محیط ہے، کچھ کہے اور سنے بغیر۔سرور آغا کا کہنا تھا کہ لڑکی کودفتر میں ایکسپلائٹ کرنا آسان تھا لیکن چیک ملنے کے بعد اس نے شادی کے لیے رضامندی ظاہر کردی۔

آخر میں مصنف نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے ایک عرصے بعد کچھ لکھا ہے۔آپ احباب نے جن نکات کی طرف توجہ دلائی ہے، انھیں میں یقینا دوبارہ دیکھوں گا۔کردار لکھاری کے ہاتھ میں ہوتے ہیں وہ جیسے محسوس کرے ویسے لکھتا ہے۔ ایسی بیٹھک میں مدعو کرنے کے لیے میں سنگت اکیڈمی کے دوستوں کا شکرگزار ہوں۔

                اس کے بعد ڈاکٹر مبین اختر میروانی نے علم نفسیات پہ اپنا مضمون پیش کیا۔ ڈاکٹر مبین کا کہنا تھا کہ دماغ کوانسانی جسم کے اعضا کا سرتاج کہا جاتا ہے۔اگر انسان کا دماغ کمزور ہوجائے تو اعصابی یا نفسیاتی ہی نہیں جسمانی بیماریاں بھی جڑ پکڑنے لگتی ہیں ہمارا پورا معاشرہ نفسیاتی بیماریوں کی زد میں ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور شعبہ صحت کی زبوں حالی نے ہمارے معاشرے کو اس حد تک لاکھڑا کیا ہے کہ ہردوسرا یا تیسرا شخص ڈپریشن یا anxietyکا شکار ہے۔دو اہم نفسیاتی بیماریاں ہیں؛ سائیکوسس اور نیوروسس۔پاگل پن نفسیاتی بیماریوں کا صرف ایک فیصد ہے جبکہ باقی 99 فی صد نیوروسس میں آتی ہیں جیسے ڈپریشن اور بے چینی۔ہمارے معاشرے میں ایک stigmaبنا ہوا ہے کہ نفسیات کے ڈاکٹر صرف پاگلوں کے ڈاکٹر ہیں۔حالانکہ99 فی صد بیماریوں میں کوئی پاگل پن نہیں ہوتا۔ڈپریشن دو مخصوص وجوہات کی وجہ سے زیادہ پھیلتا ہے: ۱۔معاشی عدم توازن۔۲۔تعلقات میں فاصلہ۔1990میں ڈپریشن دنیائے امراض میں دسویں نمبر پہ تھا۔ 2006میں یہ چوتھے نمبرپہ آگیا تھا اور 2020میں یہ دوسرے نمبرپر ہوگا۔عالمی ادارہ صحت کے اعدادو شمار کے مطابق 2012کی تحقیق یہ ہے کہ 154ملین لوگ عالمی سطح پر ڈپریشن کا شکار ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کے 44فی صد لوگ ڈپرشن کا شکار ہیں۔ 15سے29سا ل کی عمر کے لوگوں میں اس کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔عام طور پر 10فی صد ڈپریشن کے مریض خود کشی کرلیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہر فرد ایسے مریض کی بحالی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اکثر اوقات ڈپریشن اور بے چینی کے مریض اتنی سی بات سے ٹھیک ہوجاتے ہیں جب کوئی ان کی بات توجہ سے سنتا ہے۔ایسے مریضوں پہ الزام تراشی کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ اپنے اردگرد میں دلچسپی لیں اور کچھ نہ کچھ مشغولیت اختیار کریں۔

                مضمون کے بعد ان سے مختلف سوالات پوچھے گئے۔وحید زہیر نے پوچھا کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اس کے رجحان میں کتنا فرق ہے۔وہ خوش حال بھی ہیں، وہاں علاج بھی آسانی سے ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر خود دوائیاں استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ڈاکٹرمحمد صدیق آفتاب نے کہا کہ ہر کوئی مثبت کام میں اپنا حصہ ڈال لے تو ڈپریشن سے بچا جا سکتا ہے۔شہزاد الحق نے پو چھا ترقی یافتہ ممالک میں خوش حالی کے باوجودخود کشی کا رجحان کیوں زیادہ ہے۔سرور آغا نے کہا کہ تعلقات میں فاصلے کی وضاحت کریں اور کیا اس بیماری کا علاج فرائڈ کے طریقے سے ممکن ہے۔وصاف باسط نے کہا کہ مختلف اسکول آف تھاٹ کے مختلف نظریات ہیں۔ فرائڈ کے طریقہ علاج میں زیادہ وقت لگتا ہے۔آج کل استعمال میں نہیں۔ویسے بھی نفسیاتی مریض کو زیادہ وقت چاہیے۔انہوں نے پوچھا کیا ایسا ممکن کہ ایک مرض کی تشخیص 5منٹ میں کی جائے اور مریض کے لیے دوائیاں لکھ دی جائیں۔یہاں ہسپتالوں میں یہی ہورہا ہے۔ڈاکٹر عطاء للہ بزنجو نے کہا کہ علاج کو کاروبارکے طور پر نہ لیا جائے۔ بہتر انداز میں علاج کرنا نہ صرف مریض کی ضرورت ہے بلکہ اس سے نفسیاتی امراض سے بھی بچا جا سکتا ہے اور معاشرے میں ایک مثبت پیغام بھی جائے گا۔ڈاکٹر مبین نے سب سوالوں کا تسلی بخش جواب دیا۔ مزید کہا کہ ڈپریشن کو مکمل طور ختم نہ سہی لیکن اس کو کم کیا جاسکتا ہے۔

                مضمون کے بعد اجلاس کی قراردادیں پیش کی گئیں، جن کی منظوری اکثریتی رائے سے دی گئی۔ ان میں مندرجہ ذیل قراردادیں شامل ہیں:1۔یہ اجلاس طلبا یونین کی بحالی کی حمایت کرتاہے۔ اس حوالے سے بلوچستان اسمبلی کی قرارداد اور سندھ اسمبلی کے بل کا پاس ہونا خوش آئند ہے۔2۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے لاکھوں افراد خصوصاًً بلوچستان کی مستحق خواتین کو اس پروگرام سے بغیر تحقیق اور میرٹ کے نکالنا سراسر ناانصافی ہے۔3۔ بے گناہ طلبا اور سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کے بجائے ان کے مقدما ت عدالتوں میں پیش کیے جائیں۔4۔ہم صوبے میں کتاب دوستی کے سیشن میں شامل افراد کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔5۔بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسمنٹ میں ملوث افراد کے خلاف فیصلوں سے عوام کو آگاہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔6۔یہ اجلاس بلوچستان کے سرکاری ہسپتالوں کی حالتِ زار درست کرنے میں اصل رکاوٹیں دور کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔7۔شدید سردی کے باعث گیس پریشر میں کمی کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس بلوں میں ناانصافی کی حد تک واجبات شامل کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔8۔پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہ حالیہ حملے، ڈاکٹروں اور مریضوں کے ساتھ ناروا سلوک کی مذمت کرتے ہیں۔

                آخر میں صدرِ مجلس پروفیسر جاوید اختر نے پیش کی گئی تخلیقات پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ لٹریچر معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔ قاضی شہزاد الحق کاافسانہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ انہوں نے معاشرے کی صحیح معنوں میں عکاسی کی ہے۔یقینی بہتری کی گنجائش ہر جگہ رہتی ہے۔جو سوالات اٹھائے گئے اور رائے دی گئی۔ امید ہے قاضی صاحب ان باتوں کو مد نظر رکھ کر اپنی تخلیقات میں مزید نکھار لانے کی کوشش کریں گے۔ ڈاکٹر مبین اختر کے مضمون کو انھوں نے سراہا اور کہا کہ ٹیکنالوجی اور مصروفیات نے انسان کو انسان سے دور کردیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لٹریچر نے نفسیات کو بہتر انداز میں پیش کیا ہے۔ فرائڈ نے خود کہا تھا کہ میں نے دوستو فسکی سے سیکھا ہے۔ فرائڈ کاpsychoanalysis بہت پرانا ہوچکا ہے۔ ان کے بعد بہت سے لوگ آئے۔ اور نئے آئیڈیا ز دیے، علاج کے نے نئے طریقے بتائے۔صدرِ مجلس نے تما م شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

نجیب سائر نے نئے سال کی نیک تمناؤں کے ساتھ شیخ ایاز کی اس نظم پہ پوہ زانت نشست کااختتام کیا۔

میرے دیدہ ورو

میرے دانشورو

پاؤ ں زخمی سہی

ڈگمگاتے چلو

راہ میں سنگ و آہن

کے ٹکراؤ سے

اپنی زنجیر کو

جگمگاتے چلو

رود کش نیک و بد

کتنے کوتاہ قد

سر میں بادل لیے

ہیں تہیہ کیے

بارش زہر کا

اک نئے قہر کا

میرے دیدہ ورو

میرے دانشورو

اپنی تحریر سے

اپنی تقدیر سے

نقش کرتے چلو

تھام لو ایک دم

یہ عصائے قلم

ایک فرعون کیا

لاکھ فرعون ہوں

ڈوب ہی جائیں گے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے