”گیتان جلی“ کے تراجم اسی شیش محل کے عکس در عکس کا حکم رکھتے ہیں۔ عبدالرحمن بجنوری، نیاز فتح پوری، فراق گورکھ پوری، عبدالعزیز خالد اور سیّد ظہیر عباس وغیرہم کے تراجم ٹیگور کی ”گیتان جلی“ کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی منظوم و منثور کوششیں ہیں۔ ”گیتان جلی“ کے نغموں میں خدا تک پہنچنے کی آرزو اس سے شرفِ ہم کلامی اور ہم آغوشی کی تمنا، التجا، التماس، نارسائی کا شکوہ، غرض کہ عبد و معبود کے بیچ رشتوں کا تسلسل ہے۔

جو کوہ و دشت میں

تُو نے بکھیر رکھی ہے

ہر ایک سمت یہ ننھی سی بانسری کی صدا

تری ہی سانس کے نغموں کی ہے مہک اس میں

کہ تیرے ہاتھ کے اک لمسِ جاوداں کے طفیل

ملا ہے دل کو مرے وہ سرورِ بے پایاں

مرے لبوں پہ مچلتے ہیں جاں فزا نغمے

ہیں چھوٹے ہاتھ مرے کس طرح سمیٹیں گے

تری عطاؤں کو جو بے حساب ہیں یارب

زمانے آتے ہیں جاتے ہیں

میرے دامن میں

وہ طفل جس کے بدن پہ ملبوسِ فاخرہ ہو

گلے کی زینت جڑاؤ زنجیر بن رہی ہو

نہ لطف آیا اسے کسی کھیل میں کبھی بھی

کہ ہر قدم پر لباس ہی اس کا

لطف پانے سے روکتا ہے

ہے خوف اس کو یہی ستاتا

لباس پر اک شکن نہ آئے

نہ خاک ریزہ ہی کوئی لپٹے

قدم بڑھانے سے خوف کھائے

ہے ماں سے میرا بس اتنا کہنا

زر و جواہر کی اس غلامی کا فائدہ کیا

اگر یہ محروم مجھ کو رکھے

زمین کی فطری نعمتوں سے

زمین کے باسیوں کے

دکھ سکھ کو بانٹنے کے

اگر یہ دروازے بند کردے

٭٭٭

اگر ترے لب نہیں ہلیں گے

سکوت تیرا میں اپنے دل میں اُتار لوں گا

کہ رات جیسے

جھکا کے صبر و سکوں سے سر کو

خموش رہتی ہے

پاسبانی میں مہر و مہ کی

ضرور آئے گی صبح اک دن

اندھیرا غائب ضرور ہوگا

کہ آسماں کے پروں سے ہوگی

ترے سروں کی سنہری بارش

بھریں گے پرواز لفظ تیرے

مرے پرندوں کے آشیانوں سے

یہ تیرے نغمے ہی پھول بن کر

مرے بیاباں کی ہر روش پر

کھلا کریں گے

میرے محبوب تُو

سب کے پیچھے کھڑا ہے کہاں

خود کو پرچھائیوں میں چھپائے ہوئے

گرد اور دھول اڑاتی ہوئی راہ پر

لوگ پیچھے تجھے کرتے ہی جاتے ہیں

پاس سے تیرے ہوکر گزر جاتے ہیں

تجھ کو گردانتے ہیں فضول

میں یہاں پر

کئی گھنٹوں سے

منتظر ہوں کھڑی

ہاتھ میں ہوں سنبھالے ہوئے

تیرے نذرانے کو

راہ چلتے ہوئے لوگ

پھولوں کو ایک ایک کرکے مرے

لے رہے ہیں اُچک

اور مری ڈالی

خالی ہوئی جاتی ہے

صبح کا وقت جاتا رہا

دوپہر بھی ڈھلی

شام کے سائے میں نیند سے

میری آنکھیں تو بوجھل ہوئی جاتی ہیں

لوٹتے گھر کو سب لوگ

میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں

شرمندہ مجھ کو کیے جاتے ہیں

اور میں

جیسے بھک منگی لڑکی کوئی

کھینچ لیتی ہوں چہرے پہ بس دامن اپنا

پوچھتے جب وہ ہیں

کیا ہے مطلوب مجھ کو

تو میں اپنی آنکھیں جھکا لیتی ہوں

میں جواب ان کی باتوں کا

دوں بھی تو کیا

واقعی ان کو کیسے بتاؤں بھلا

تیری آمد کی میں منتظر ہوں یہاں

شرم سے میں یہ کیسے کہوں

تُو نے آنے کا وعدہ کیا مجھ سے ہے

اور یہ مفلسی سینت رکھی ہے میں نے

سمجھ کر جہیز

آہ اس فخر کو

اپنے دل کی تہوں میں چھپائے ہوئے

منتظر ہوں یہاں

اور یہاں گھاس پر بیٹھ کر

ایک ٹُک آسماں کو ہی تکتے ہوئے

تیری آمد کا میں

خواب ہوں دیکھتی

ہر طرف جگمگاتی ہوئی روشنی

جھنڈیاں تیرے رتھ پر سنہری ہیں لہرا رہی

راستے میں کھڑے لوگ ہیں دیکھتے

اپنے آسان سے نیچے اترتا ہے تو

فخر سے

تاکہ اوپر اٹھائے مجھے

اور چیتھڑے پہنے بھک منگی لڑکی کو

پہلو میں اپنے لے کر بٹھائے

شرم اور فخر سے

میں تو کانپ اٹھتی ہوں

جیسے لہراتی ہو بیل کوئی

خزاں کے تھپیڑوں کے آگے

مگر وقت اڑتا چلا جا رہا ہے

ترے رتھ کے پہیوں کی آواز

ابھی تک سنائی نہیں دی

کئی جھانکیاں

شور کرتے ہوئے کامرانی کا اپنی

مرے سامنے سے نکل ہیں چکی

تو کیا صرف تم ہو

جو ان سب کے پیچھے

کسی سائے میں

ہو یوں تنہا کھڑے

تو کیا صرف میں ہوں

جو روتی ہوں

اور منتظر ہوں تری

دل میں ملنے کی

بے کار حسرت چھپائے ہوئے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے