جس وقت لینن کے بڑے بھائی کو پھانسی دینے والا قہر ٹوٹا تو‘ لینن کی عمر سترہ برس تھی۔ سوا سال پہلے باپ مرا تھا۔ چنانچہ پورے خاندان پہ دنیا اندھیر ہوگئی۔  بادشاہ سے خوفزدہ دنیا نے الگ منہ موڑ لیا تھا۔ مالی تنگدستی بحران کی شکل اختیار کر گئی۔ اس قدر کہ خاندان کو کازان ؔمنتقل ہونا پڑا۔

لینن کی بہن اولگا نے اس موقع پر اپنی دوست کو لکھا:۔

”خوشی؟۔ کہاں ہے یہ؟۔خوش لوگ کہاں ہیں؟۔ نہیں۔ میں خوشی کو بالکل نہیں مانتی۔ ہاں صرف یہ مانتی ہوں کہ اپنی اور دوسروں کی ناخوشی کو صرف ایک طریقے سے فراموش کردینا ممکن ہے: اپنا فرض سرانجام دینے سے“۔(1)۔

غمزدہ لینن کے اندر یہ عزم مستحکم ہو گیا کہ وہ اپنی ساری زندگی انقلابی جدوجہد کے لئے وقف کر دے گا۔

ایسا نہ ہوا کہ اس کے بھائی کا سانحہ اسے صرف گہرا صدمہ دیتا، یا زیادہ سے زیادہ اُس کے نقشِ قدم پر چلنے کے لیے ایک ضرورت یا عزم کو جگاتا۔۔۔بلکہ اس کے برعکس بھائی کے سانحہ نے اُس کے دماغ کو تیزی سے کام پر لگا دیا، اس نے اُس میں ایک حیرت انگیز متانت و سنجیدگی و کم گوئی پیدا کی، سچ کا ڈٹ کرسامنا کرنے کی اہلیت اور ایک لمحے کے لیے بھی محض باتیں بنانے، محض ایک واہمہ میں بہنے نہ دیا۔ اس نے اس کے اندر کسی بھی معاملے تک پہنچنے میں ایک زبردست فراست پیدا کی“۔ اور وہ بے فکر اور خوش باش نوجوان ایک دم ایک بالغ نظر آدمی بن گیا۔

اس کی بہن آننا کچھ دن بعد رہا ہوئی۔ اس نے لکھا: ”الیگزنڈرہیرو کی موت مرا۔ اس کے خون نے انقلابی شفق کو رنگ دے کر اس کی پیروی کرنے والے بھائی لینن کا راستہ روشن کر دیا“۔       اس کی بہن ماریا نے اُسی وقت سترہ سالہ نوجوان لینن سے ایک عجیب فقرہ سنا۔ ایسا فقرہ جو صرف وہی کہہ سکتا تھا اور اُسی کو ہی زیب دیتا تھا۔ فقرہ تھا:”نہیں۔ہم ایک مختلف راستہ اختیار کریں گے“۔(2)۔

اور اس نے واقعی بھائی والے رستے کے بجائے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ اس نے ایک چھوٹا سازشی قاتل گروہ تشکیل دینے کے بجائے ایک وسیع اور منظم سیاسی پارٹی قائم کرنے کی ٹھانی۔

کسی کو کیا خبر تھی کہ بڑے بھائی کی پھانسی کے تیس برس بعد چھوٹا بھائی اس پارٹی کی مدد سے ایک ایسا انقلاب برپا کردے گا جس سے کہ انسان کا مقدر بدل جانا تھا،تاریخ نے اپنا دھارا بدل دینا تھا اور سارے جہاں نے الٹ پلٹ جانا تھا۔

بڑے بیٹے کی پھانسی کے بعد سے ماں نے اپنی مادرانہ شفقت لینن کی طرف مرکوز کردی۔ لینن بھی اپنی شکستہ دل،بے چاری ماں سے بہت محبت کرتا تھا (3)۔

کل چھ بہن بھائیوں میں سے لینن کا نمبر تیسرا تھا۔لینن سے ڈیڑھ برس چھوٹی بہن کا نام اولگاتھا (پیدائش 1871)۔وہ بچپن میں لینن کے کھیل کود کی ساتھی تھی۔ (4) اس باصلاحیت اور محنتی لڑکی نے گولڈمیڈل لے کر گریجوئیشن کرلیا۔مگر وہ خاندان کے ساتھ دیر تک ساتھ نہ رہ سکی۔ وہ 8مئی 1891 میں پیٹرسبرگ میں تعلیم کے دوران ٹائیفائڈ کے مرض سے19 برس کی عمر میں فوت ہوگئی۔ وہ وہیں سینٹ پیٹر سبرگ میں دفن ہے۔

لینن کی سب سے چھوٹی بہن کا نام ماریا تھا۔اس نے انقلابی تحریک میں اُس وقت شمولیت اختیار کی جب وہ ابھی طالب علم تھی۔ پھر وہ پیشہ ور انقلابی بن گئی۔ انقلابی سرگرمیوں کے جرم میں کئی بار گرفتار ہوئی اور کئی بار جلا وطن۔ (5)۔ وہ اپنے بھائی لینن کی قریب ترین اسسٹنٹ رہی۔ فروری 1917سے لے کر1929کے موسم ِ بہار تک وہ پارٹی اخبار ”پراودا“ کی سیکریٹری رہی۔ اس کے بعد وہ سوویت کنٹرول کمیشن میں رہی۔ اس نے لینن کے بارے میں بہت لکھا۔  وہ اپنی موت کے دن تک کام کرتی رہی۔اس کا انتقال 1937میں ہوا۔

ماریا اور نادژدا کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا: ”نادژدا نے مزدوروں کسانوں کے ایک ناخواندہ ملک کو پڑھنا سکھایا، اور ماریاؔ نے ورکنگ کلاس کو لکھنا سکھایا “ (6)۔

لینن کے چھوٹے بھائی کا نام دیمتری  تھا۔(پیدائش1874)۔ دیمتری ماسکو یونیورسٹی کے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ میں تعلیم کے دوران ہی مارکسسٹ بنا۔اوراس نے ماسکو کے اندر مارکسسٹ سٹوڈنٹس گروپس میں انقلابی کام شروع کیا۔ وہ  ایک پیشہ ور انقلابی تھا۔تربیت کے لحاظ سے وہ ڈاکٹر تھا۔ 1900میں وہ اسکراکی تنظیم میں شامل ہوا۔وہ اپریل 1905سے فروری 1906تک انڈر گراؤنڈ سرگرمیاں کرتا رہا۔ انقلابی سرگرمیوں کی بدولت بار بار گرفتار ہوا۔

اکتوبر انقلاب آیا تو وہ ہیلتھ سروسز کو منظم بنانے میں لگا رہا۔

دیمتری کا 1943میں انتقال ہوا(7)۔

لینن کاوالد سکول ٹیچر تھا۔اسے 1869 میں سمبر سک کے صوبے میں انسپکٹر سکولز مقرر کیا۔وہ وہیں شفٹ ہوگیا۔لینن وہیں سمبر سک میں 22 اپریل 1870کوپیدا ہوا۔والگا دریا کے کنارے واقع اس شہر کا نام بعد میں لینن کے نام الیانوف کی نسبت سے  اُلیانووسک پڑگیا۔ بڑے انسانوں کو پیدا کرنے والے علاقوں کو اپنی شناخت اور اپنے نام کی قربانی تو دینی ہی پڑتی ہے۔

لینن کا بچپن اس وسیع اور باہم محبت کرنے والے خاندان میں گزرا۔ وہ بچپن میں پھرتیلا، زندہ دل اور خوش باش بچہ رہا اور اُس کو شورو غل اور دوڑ دھوپ والے کھیلوں سے دلچسپی تھی۔ (8)۔ اس نے اپنی زندگی کی اولین ایک تہائی یہیں گزاری (9)۔

انسان بھی ایک دلچسپ مخلوق ہے۔ پیار کرتا ہے تو پرستش کی حدود کوعبور کرتا ہے۔ لینن کے ایک بایوگرافر نے لکھا کہ چار برس کی عمر کی اُس کی ایک تصویر ہے جس میں اُس کا چہرہ گول، بال گھنے اور گھنگر یالے ہیں۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ اور غور بھری آنکھیں  ہیں۔ اس نے لکھاکہ 1962میں پاویل پوپووچ یہ تصویر اپنے ساتھ خلامیں لے گیا جس نے زمین کے مدار کے گرد 48بار چکر لگائے (10)۔

پانچ برس کی عمر میں ماں نے اُسے پیانو بجانا سکھانا شروع کیا۔ اور آٹھ برس کی عمر تک وہ اُسے اچھا خاصا بجا سکتا تھا۔لینن کوشطرنج کھیلنا بہت پسند تھا۔وہ سردیوں میں سکیٹنگ کرتا تھااور گرمیوں میں دریا کی پیراکی۔

روس کے سکولوں میں پشکن، گوگول، ٹرگنیف، ٹالسٹائی او ر دوستو ئفسکی نہیں پڑھائے جاتے تھے۔ اسی طرح گو کہ بچے فرنچ اور جرمن پڑھتے تھے مگر روس کا کوئی سکول والٹیئر، روسو اور گوئٹے نہیں پڑھاتا تھا۔چنانچہ یہ سب کچھ اُسے خود سے پڑھنا تھا۔

لینن کے سکول کے ہیڈ ماسٹر کا نام یاد رکھیے۔اس لیے کہ آگے اُس کے خوب حوالے آئیں گے:فیدر کیرنسکی۔وہ الیگزنڈر کیرنسکی کا باپ تھا۔ وہی الیگزنڈر کیرنسکی جو بعد میں روس کا حکمران بنا، اور اسی کیر نسکی کا1917 میں لینن نے تختہ الٹنا تھا۔ اپنے ہیڈ ماسٹر کے بیٹے کا تختہ کرنا تھا۔

وہ صرف سکول کا ہیڈ ماسٹر نہ تھا بلکہ لینن کے والد کی وصیت کی روسے وہ لینن فیملی کا گارڈین بھی تھا۔ (11)۔

اپنے بڑے بھائی الیگزنڈر کی قید اورپھانسی کے مہینوں میں لینن اور اولگا سکول میں اپنے آخری سال کے امتحانات کی تیاری کررہے تھے۔ اُن دونوں کے اعصاب کی مضبوطی غیر معمولی تھی۔ بھائی کی پھانسی کے تین ماہ بعد (5مئی1886 میں)اُن دونوں کے امتحان شروع ہوئے اور ایک ماہ تک چلے۔ گو کہ خاندان کو سینٹ پیٹرسبرگ سے خوفناک خبر نے نگل لیا تھا، اور قصبے کے لوگوں نے اُن سے منہ پھیر لیاتھا۔ مگر لینن کا سیلف کنٹرول اور قوت ِعمل حیران کن تھے۔ اس نے کمال کوشش سے اپنے تسلی نہ دلائے جاسکنے والے غم کو روکے رکھا۔اور تعلیم و امتحان پہ مکمل توجہ دیے رکھی۔ ایسے حالات میں یہ انسانی فہم سے اونچی بات تھی کہ اُس نے تمام دس پرچوں میں بلند ترین نمبر حاصل کیے، اپنے29 ساتھی امیدواروں کی کلاس میں اول آیا اور گولڈ میڈل کا حقدار ہوا۔ (12)۔گریجوئیشن وِد گولڈ میڈل!!۔ وہ قابلیت، پراگریس اور برتاؤ میں سکول کا بہترین سٹوڈنٹ تھا!۔اس کی بہن اولگا نے بھی اپنے سکول میں یہی نتیجہ لیا۔ دونوں سکولوں میں گولڈ میڈل کا معاملہ الیگزنڈر کے واقعے کے بعد نازک شکل اختیار کر گیا۔ مگرہیڈ ماسٹر کیرنسکی نے لینن کے لئے یہ حمایتی خط لکھ کر سرکار کو گویا خاموش کردیا:

”لڑکے کو اُس کے والدین نے ”مذہب اور شائستہ ڈسپلن پہ مبنی“ تربیت دی، اور اُس نے نافرمانی کے کوئی آثار نہ دکھائے۔ انتہائی باصلاحیت، مستقل طور پر متوجہ اور نقص سے پاک اولیا نوف (لینن)ساری کلاسوں میں اول رہا اور اسے اپنی کورس کے آخر میں کارکردگی‘نشوونما اور برتاؤ میں سب سے زیادہ مستحق شاگرد کے بطور گولڈ میڈل دیا گیا……“

لینن بچپن میں ٹرگنیف کے ناولوں کو پسندکرتا تھا۔ اسے گوئٹے بھی پسند تھا۔ اسی طرح وہ بچپن ہی میں چیخوف اور اس کے اسلوب کو بہت پسند کرنے لگا تھا۔ اس نے سکول ہی کے زمانے میں سپارٹیکس، گیری بالڈی، اورٹارس وبلبا جیسے تاریخی ہیروؤں کے بارے میں پڑھا۔ستارہ سال کی عمر میں لینن،روس کے عالمی شہرت یافتہ ناول نگار چرنی ؔشیوسکی کا دیوانہ بن گیا۔ اسے اُس کا ناول ”کیا کیا جائے“ بہت پسند تھا۔ جس کے بارے میں بعد میں اس نے لکھا: ”۔۔۔ اس ناول کے اثر میں سینکڑوں لوگ  انقلابی بنے۔۔۔ اس نے میرے بھائی کواپنے زیر اثر لیا، اور اس نے مجھے  بھی اپنے اثر میں جکڑلیا۔۔۔“۔اس کا کہنا تھا کہ چرنی شیوسکی کی کتابوں کے مطالعہ نے اُسے مارکس کو پڑھنے سے قبل تیاری کا بہت مواددیا۔بعد میں بلامبالغہ وہ اسے درجنوں بار پڑھتا رہا۔

مارکس کو اس نے اٹھارہ برس کی عمر میں پڑھنا شروع کردیا تھا اور 23 برس کی عمر میں وہ پکا مارکسسٹ بن چکا تھا۔

پھرمارکسزم کے اُس کے اولین شاگرد اُس کی اپنی بہنیں آنا اور ماریا، اور بھائی دیمتری تھے۔ اُس نے اپنی سیاست سے متعلق سب کچھ اپنے گھر سے شروع کیا تھا۔

وقت جب راضی ہو تو بادشاہِ وقت کی ناراضگی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ اس کو دارالحکومت کی یونیورسٹیوں میں داخلہ ملتا۔ شاہ مخالف اورپھانسی یافتہ د

واضح رہے کہ1887میں یونیورسٹی سے اخراج کے بعد کے آٹھ سال لینن کی زندگی کے اہم ترین سال تھے۔یہ اس کی عمر کے 17ویں سے 25ویں سال تھے۔ اس نے خود مطالعاتی کا بڑا پروگرام بنایا اور اُس پہ چلا۔اس نے درجنوں کتابیں پڑھیں۔ 20سال کی عمر میں اس کے سر کے تقریباً سارے بال جھڑ چکے۔

1890 میں لینن نے”کمیونسٹ مینی فیسٹو“ کا ترجمہ کیا۔ اور پلیخا نوف کی تحریروں کا گہرا مطالعہ کیا۔مارکس اور پلیخانوف کی تحریروں نے لینن کو بنیادی تحقیق کی طرف ڈال دیا۔ اس نے ہر وقت خود کو مارکس کا شاگرد کہا۔

لینن کو چار سال کے بعد جنوری1892 میں ماں کی مسلسل کوششوں کے بعد پیٹرسبرگ یونیورسٹی سے  قانون کی ڈگری کے لیے امتحان دینے کی اجازت دی گئی۔ پیٹرسبرگ میں اُس کا یہ اولین قیام بہت مختصر تھا۔وہ امتحان میں اعزازی نمبروں کے ساتھ کامیاب ہوگیا۔اور اسے قانون کے پریکٹس کا لائسنس مل گیا۔ مگر اُس کو قانون کے پیشے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اُسے تو انقلابی سرگرمیوں کی تڑپ تھی۔چنانچہ اس نے چند دن ہی بار میں گزارے۔

اِس گھرانے کی انقلابی سرگرمیاں 1893میں اُس وقت شروع ہوئیں جب آنا کی جلاوطنی کی معیاد پوری ہوئی اور خاندان کا زانؔ چھوڑنے کے قابل ہوا۔ آنا پر، پیٹرسبرگ میں داخلے پر ایک مزید سال کی پابندی لگ گئی۔  چنانچہ ماں فیملی کے ساتھ ماسکو آئی مگر لینن ماسکو کے برعکس سینٹ پیٹرسبرگ چلا گیا۔ پورے خاندان کو روس کے اِس دوسرے بڑے شہر ماسکو میں خوب مواقع میسر تھے۔ دیمتری نے میڈیسن پڑھنا شروع کیا، ماریا نے اپنی سیکنڈری تعلیم مکمل کی۔ آناؔ دوسرے انقلابیوں سے ملنے اور اُن کے کام میں شامل ہونے اور تراجم کے ذریعے کچھ پیسہ کمانے کے قابل ہوئی۔آنا نے سمجھو ماسکو پارٹی سنبھالی۔

مگر،لینن مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے1893کے خزاں میں سینٹ پیٹرسبرگ چلا گیا۔ اور یہیں 1894میں اس کی ملاقات نوجوان انقلابی خاتون کروپسکایا سے ہوئی جس کی تفصیل ہم پہلے ہی دے چکے ہیں۔

 

حوالہ جات

 

۔1۔کائی ٹُورین۔فارگاٹن لائیوز۔صفحہ 23

۔2۔ او بیچکین اور دوسرے۔ لینن مختصر سوانح عمری۔1971۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو۔ صفحہ10

۔3۔ جی زینوویف۔ لینن ہزلائف اینڈ ورکس۔جنرل ورکرز یونٹ آف O.B.Uآف ٹورنٹو۔سال نہ دارد۔صفحہ2

۔4۔ رابرٹ سروس۔ لینن، سوانح عمری۔پین بکس۔2000۔ صفحہ31

۔5۔ کائی ٹورین۔فارگاٹن۔۔۔صفحہ 147

۔6۔کائی ٹورین۔ فارگاٹن۔۔۔ صفحہ 145

۔7۔ڈیویٹوف۔۔۔ دی سنٹرل لینن   میوزیم۔۔صفحہ50

۔8۔ اوبیچکین اور دیگر لینن مختصر سوانح عمری۔ 1971۔ دارا لاشاعت ترقی۔ ماسکو۔ صفحہ 10

۔9۔لوئی فشز۔دی لائف آف لینن۔1964۔ہارپر اینڈ  راؤ پبلشرز صفحہ5

۔10۔ لوئی فشر۔دی  لائف آف لینن۔ صفحہ 1

۔11۔ڈیوڈ شَب۔۔۔صفحہ 37۔

۔12۔ڈیوڈ شَب۔۔ صفحہ 36

۔13۔وولکوگونوف۔۔۔لینن لائف۔۔ صفحہ 23

۔14۔پولیسی لوف،۔ لینن، اے بایوگرافی۔ 1995۔

15۔ Reminiscences of lenin by His Relatives, Moscont.1956صفحہ 27

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے