ہمارا المیہ یہ ہے کے ہم آج بھی پرانی سیاسی سماجی اور معاشی ناانصافی میں رہنے کے باوجود خود کو آزاد خودمختیار سمجھتے ہیں۔بلکہ ہر سرکار تہذیبی اور ترقی کے نئے تجربے کرتی رہتی ہے۔ہم نے اس بات کو بھلا دیا ہے کہ یورپ ایشیا اور افریکہ جیسے براعظموں میں پھیلی ہوئی اپنے وقت کی طاقتور ترین حکومت سلطنت عثمانیہ کے زوال کا سبب بھی ایسی ہی فرسودہ سیاسی معاشی نظام تھا جس کو پیشواؤں کی پشت پناہی حاصل تھی۔جو سمجھتے تھے کے وہی درست ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کے پچھلے ستر سالوں میں پاکستان کا سیاسی نظام جو بیشتر ڈکٹیٹرزکے زیر سایہ رہا ہے  اور آج بھی اسی طرح قائم ہے بلکہ پرانا کھیل جدید ہتھیاروں  اور نعروں سے لوگوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے اور خاص  طور پرعورت اپنی مرجھائی ہوئی آنکھوں سے اس ملک کے آئین قانون کو دیکھ رہی ہے۔ وہ نسوانی ناہمواری غیرت کے نام پر ماری جانی والے ان زنجیروں سی بندھی ہوئی ہے جس کو ہمارا ملک تحفظ کا نام دیتا ہے انسانی آزادی فکری ارتقا کا بنیاد ہوتی ہے۔ جس سے آج کی عورت محروم ہے۔وہ تمام لوگ جو کسی نہ کسی طرح دنیا سے جڑے ہوئے ہیں ان کو اس بات کا احساس ہے کہ ملک کی ستر فیصد آبادی جو عورت پر مشتمل ہے کس اذیت کا شکار ہے۔

شدت پسندی،لسانی اقلیتیں،غربت ان سب کو آج عورت کس طرح جھیل رہی ہے۔ ہمارا پورا کا پورا نصاب مرد کی غیرت کو جگانے میں لگا ہوا ہے۔

ہم یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان زرعی پیداوار والا ملک ہے جو اب محض ایک خیال رہ گیا ہے۔ زرعی ترقی کا عالم یہ ہے کہ کئی سال تک بارشیں نہیں ہوتیں۔اگر ایک سال فصل اچھی ہوجاے تو ٹڈیوں کے حملے سے تباہ ہو جاتی ہے۔ اس سال بھی تقریباً یہی ہوا جس سے دوکروڑ سے زیادہ افراد غذائی کمی کا شکار ہونگے۔

کیا ہمیں سرکار سے یہ سوال نہیں کرنا چاہیے کہ آپ کی پائیدار زرعی پالیسی کہاں ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ غذائی قلت کا شکار سب سے زیادہ عورتیں اور بچے ہوتے ہیں اور زرعی ترقی میں آپ عورت کو کیوں نہیں شریک کرتے۔بڑی جاگیرداری کا خاتمہ کیوں نہیں کرتے۔

عورت کی ستم ظریفی یہاں تک ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ پاکستان میں عورتوں کے خلاف مجرمانہ تشدد کا تومعمولی حصہ پریس تک پہنچ پاتا ہے۔ سکھر گھوٹکی راجن پور مدارس جامعات عورتوں اور طلبا کی مشق ستم سے بھرا ہواہے جن میں اکثریت کا تعلق نچلے طبقے کے دیہاتیوں سے ہے۔شہر کی عورت کی نسبت جسے مقامی سطح پر شیلٹر ہاؤس یا ایدھی کی مدد مل جاتی ہے لیکن دیہاتی علاقوں میں جب عورت اس قسم کے مستبدانہ معاملات کی زد میں آجائے تو در حقیقت اس کے مارے جانے کے زیادہ امکان رہتے ہیں۔آج کل کم عمر ہندو لڑکیوں کی بڑی تعداد پیرومرشد کی خانقاہوں سے مسلمان کر کے پیرومرشد کے نوکروں سے بیاہے جانے کاجنون ہے جسے کوئی روکنے والا نہیں۔ ساؤتھ ایشیا میں عورتوں کے خلاف مجرمانہ تشدد عام ہے لیکن یہاں ایک وبا یا نہ ختم ہونے والی بھوک بن گیا ہے انسانی حقوق کی کمیشن کے مطابق2015 کے

ایک سال کے اندر 939عورتیں جنسی تشدد کا شکار ہوئیں۔ 143عورتوں پر تیزاب پھینکا گیا۔833اغوا ہوئیں اور 987 غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے