دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی پہ مشتمل خواتین کے لئے سال کا صرف ایک دن مخصوص کیا گیا ہے۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر دن صبح سے شام تک عورت ہی کا دن ہے۔ غلام داری سماج سے لے کر موجودہ جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ نظام تک زندگی کا کوئی شعبہ عورت کی شرکت کے بغیر نامکمل ہے۔ گھر ہو، دفتر ہو، کارخانے ہوں یا کھیت عورت ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔

      عورت ازلی و حقیقی مزدور ہے۔ یہ وہ محنت کش ہے جو تقریباً بلامعاوضہ کام کرتی رہتی ہے۔ زندگی کا کوئی لمحہ یادن کا کوئی پہر کام کے بغیر نہیں گزارتی۔ اس کے دن کا آغاز و اختتام اکثر باورچی خانہ میں ہوتے ہیں۔ گھریلو عورت تو گویا ایک مشین ہے۔ کھانا پکانا، گھر کی صفائی ستھرائی، کپڑوں اور برتنوں کی صفائی اور دیگر گھریلو کام عورت کو بلاناغہ ہی کرنی پڑتی ہیں۔

     دفتروں میں بھی عورت مردوں کی نسبت زیادہ کام کرتی ہے۔ کارخانوں میں تو عورت محنت کش کی خوب استحصال کی جاتی ہے۔ کم معاوضہ پہ اس سے زیادہ کام لیا جاتاہے۔

       بلوچستان کے زرعی خطے نصیرآباد کی زراعت کا شعبہ تو گویا عورت کی محتاج ہے۔ بیج بونے سے لے کرفصل اٹھانے تک عورت مرد کے شانہ بشانہ بلکہ مرد سے بڑھ کر کام کرتی ہے۔ پٹ فیڈر و کیرتھر اور شاہی واہ کے کمانڈ ایریا میں صبح دوپہر شام خواتین کی قطاریں زمینوں پہ کام کے لئے آتی جاتی نظر آتی ہیں۔ زمین ہموار کرنا، چاول کی پنیری لگانا، فصل کی دیکھ بھال، اورکٹائی اٹھائی میں مرد کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ سبزی اگانا تو عورت کے بغیر ناممکن ہے۔ ٹماٹر، پیاز، گوبھی، مرچ و بھنڈی وغیرہ کے کھیتوں میں عورت سارا دن کام کرتی رہتی ہے۔ ربیع کینال اور جھٹ پٹ کے علاقوں میں سبزی کے کھیتوں میں عورت ہی کام کرتی ہیں۔ عام مشاہدہ یہی ہے کھیتوں میں ایک یا دو مردوں کے ساتھ آٹھ دس عورتیں کام کرتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ زرعی معیشت میں مرد سے زیادہ کردار عورت کا ہے۔ اس شعبے میں بھی زیادہ استحصال عورت ہی کی ہوتی ہے۔ فصل کے مکمل ہونے پہ کھیت مزدور عورت کو جو مزدوری ملتی ہے وہ اکثر ایک جوڑا کپڑے اور ایک جوڑا چپل کی ہوتی ہے۔ اور یہ سلوک عورت کے ساتھ کوئی اور نہیں اپنے ہی گھر کے مرد باپ، بھائی، بیٹے اور شوہر کے روپ میں کرتے ہیں۔

      عورت محنت کش کا سب سے زیادہ استحصال مختلف گھروں میں کام کرتے ہوئے کی جاتی ہے۔ ایسی عورتوں کو عام زبان میں "ماسی ” کہاجاتا ہے لیکن وہ ماسی کسی کی بھی نہیں ہوتی ہے۔ امیروں کے گھروں کے سارے کام معمولی معاوضے حتی کہ بعض اوقات صرف کھانے کے عوض کرتی ہے۔

    المختصر عورت کے بغیر زندگی کا کوئی شعبہ کوئی پہلو مکمل نہیں۔ ہمیں انہیں برابر کا انسان سمجھنا ہوگا اور انہیں برابر کے حقوق اور حصہ دینا ہوگا۔ تب جاکے ہم روشن خیال اور ترقی یافتہ سماج قائم کرنے میں کامیاب ہونگے۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے