دنیا بھر کی عوامی سیاسی پارٹیوں کی طرح ”ینگ بلوچ“ بھی اچانک پیدا نہ ہوئی۔ اور  نہ ہی یہ ایک آدھ ذہنوں کی فرمائش پہ وجود میں آئی۔ بلکہ ینگ بلوچ انگریز کے خلاف ہماری طویل جنگِ آزادی کا حاصل تھی۔

ینگ بلوچ کو جنم دینے والے عوامل خارجی بھی تھے اور داخلی بھی۔ انہی خارجی اور داخلی  محرکات سے جنم یافتہ اِس ینگ بلوچ نے ایک  بڑا کام کرنا تھا۔ اس نے نظریاتی  اور سائنٹفک نیشنلزم کے نمودار ہونے اور اس کے ارتقا میں تیزی پیدا کرنی تھی۔ اس پارٹی کی بدولت  بلوچ قومی  جذبہ کو ایک نئی قوتِ متحرکہ حاصل کرنا تھا، اور  پورے خطے کے معاملات میں ایک بڑی اہمیت والی سیاسی قوت بننا تھا۔

اس وقت خارجی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ تھی کہ اُس (بیسویں) صدی  کے اوائل میں برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت  تھا۔ دنیا میں اس کی صنعت اور ترقی کا راج تھا۔ ایشیا کے سارے فیوڈل ممالک پہ اس کا قبضہ تھا۔ جنوبی ایشیا کے سارے  راجے، مہاراجے، خان، امیر اور سلطان انگریز کے  نمبردار، جمادار اور رسالدار  بنادیے گئے، ان کا کام اب محض انگریز کا لگان اکٹھا کرنا تھا۔ متحدہ ہندوستان کے لوگ کرائے کے سپاہی بن کر  انگریز فوج میں اپنے ہی ہم وطنوں کو کچل رہے تھے۔فرانس، جرمنی، ترکی اور روس نے بھی بہت سے ملکوں پر قبضہ کررکھا تھا۔ مگر ان کی یہ منڈیاں اور یہ سامراجیت برطانیہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھی۔

لہذا دوسرے نمبر کی طاقت جرمنی اس کے آگے کچھ نہ تھا۔

اس منظر نامہ میں دو بڑے عالمی واقعات ایسے ہوئے کہ بلوچ کی ایک باقاعدہ سیاسی پارٹی  ضروری ہوگئی۔ ان دو واقعات میں ایک تو1914کی پہلی عالمی جنگ تھی اور دوسرا1917 کا روسی سوشلسٹ انقلاب  تھا۔

1۔ پہلی عالمی جنگ:۔

بلوچ اپنی آزادی کے  لیے انگریز سامراج سے جنگوں میں مصروف تھا۔مگر یہ لڑائیاں نہ تو کسی متحدہ کمان کے تحت تھیں اور نہ ہی قومی پیمانے کی۔ کوئی ایک قبیلہ سب سے الگ تھلگ اٹھ جاتا، انگریز جیسی ٹکنالوجی سے بھڑ جاتا اور شکست کھاتا۔ ساتھ والا قبیلہ خاموش۔ پھر کہیں دوسرے کونے سے کسی قبیلے کے ایک فرقے میں ابھار پیدا ہوجاتی اور انگریز وہاں کی سرکشی کو کچل ڈالتا۔ یوں مادرِ وطن پہ قربان ہونے والے شہیدوں کی تعداد بڑھتی جاتی۔یا پھرجیند و گل بی بی، نورا مینگل اور دلیل و دودا جیسے ہیروؤں کی سامراج دشمنی کے نغمے تخلیق ہوتے رہتے۔ اور انگریز کا قبضہ مزید مضبوط ہوتا جاتا۔

یہیں وہ بڑا واقعہ ہوا جس نے پوری دنیا کی طرح بلوچ کو بھی اتھل پتھل کرکے رکھ دیا۔ 1914 میں عالمی جنگ چھڑ گئی۔جرمنی اور ترکی ایک طرف تھے اور برطانیہ فرانس روس اور اٹلی دوسری طرف۔یہ بڑی طاقتیں دنیا  کی منڈیوں کی بندر بانٹ پر آپس میں لڑ پڑیں۔یوں پوری دنیا اس طویل اور تباہ کن جنگ کی لپیٹ میں آگئی۔ پہلی عالمی جنگ کے بارے میں بلوچ کانقطہِ نظر یوں تھاا:

پلنگ و جرمنی جنگا

دوئیں حاکم مڑغیثاں

رڑثہ سیاہ دفیں توپاں

لکھاں گار کنغئے ثاں

 

ترجمہ:۔

برطانیہ اور جرمنی کے درمیان جنگ تھی

دونوں افواج برسر پیکار تھیں

سیاہ دھانوں والی توپوں کی گھن گرج تھی

لاکھوں انسان قتل ہو رہے تھے۔

 

اس جنگ کے بارے میں ایک بہت ہی دلچسپ بات یہ تھی کہ جرمنی تو اپنی افواج کے ساتھ  لڑرہا تھا۔مگراس کے مقابلے میں برطانیہ کی طرف سے اس کی اپنی فوج نہیں بلکہ زیادہ ترمتحدہ ہندوستان سے کرائے کے فوجی لڑ رہے تھے۔جنگ طول پکڑ گئی تو برطانیہ نے  یہاں سے اپنی بھرتیاں مزید بڑھا دیں۔ چونکہ انگریز کاحکم تھا، لہٰذا یہاں ہر حصے سے لوگ جوق درجوق  اس سامراجی فوج میں بھرتی کے لئے پیش ہونے لگ جاتے۔ سکھ، اورگورکھا ہوں یا دیگر پڑوسی اقوام، سب لائن میں کھڑے تھے۔

اس مقصد کے لئے ہندوستان کے ہر علاقے سے سپاہی بھرتی کرنے کے بعد انگریز حکمرانوں نے بلوچستان سے بھی فوجی بھرتی کا پروگرام بنایا۔بلوچستان میں گورنر جنرل کے نمائندہ سرجے ریمزے نے  سبی دربار میں بلوچستان سے سرداروں سے  فوجی بھرتی دینے کا مطالبہ کرڈالا:۔

 

سری لوٹیں تمنداراں

سیوی آ روغئے ثاں

تمندار سیولا مُچاں

جرگایاں کنغئے ثاں

پلنگی لوٹغیں مڑداں

بغائیا دیغئے ثاں

مئیں دستئے نمکواراں

کہ مں داثاں پہ درباراں

چُغا گوں شال و بُلغاراں

اغر آنہانہ گیر آریں

مروشی مارہ پکاریں

ترجمہ:۔

سردار طلب کئے گئے

سبی کے مقام پر

سردار سبی میں جمع ہیں

جرگے کر رہے ہیں

انگریز‘ سپاہی مانگ رہا ہے

سردار‘ بزدلی دکھا رہے ہیں

اے میرے نمک خوارو

میں تمہیں دربار(انعام) دیتا رہا ہوں

چوغے شال اور ریشمی لباس

وہ ساری چیزیں یاد رکھو

آج ہمارے کام آ جاؤ

پھراسی سلسلہ میں کوئٹہ میں ایک جرگہ طلب کیا گیا۔اس میں سرداروں سے خطاب کرتے ہوئے ریمزے نے کہا کہ ”جب کہ ہندوستان کے تمام راجوں مہاراجوں اور پنجاب کے تمام بلوچ قبائلی سرداروں نے فوجی بھرتی دے کر حکومتِ برطانیہ کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ بلوچستان کے سردار بھی ان کی پیروی نہ کریں“۔

مگر‘یہ محض سوال و درخواست نہیں  تھی۔ زور آور تو کمزور کے سامنے سوالی بن کر بھی، دھمکی دے ڈالتا ہے۔ یہاں بھی اس کی تقریر کے اندر لپٹی ہوئی یہ دھمکی شامل تھی:             ”ورنہ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ“۔

چنانچہ یوں ہوا کہ بہت سارے بلوچ بھی پگھل پگھل کر انگریز کے سامنے بچھ رہے تھے۔ بہت سارے سرداروں نے بھرتی دینے  کا فیصلہ کرلیا۔ اپنے ذمے لگائے گئے افراد کی لسٹیں تیار کیں اور انگریز کے حوالے کیں۔ انگریز اس کارگزاری پہ بہت خوش تھا۔ اس کی ڈیمانڈ سے زیادہ لوگ بھرتی میں دیے گئے۔

لکھثو صذ مڑداثہ بہراما

پنجہ مڑداثہ بڑزی بزدارا

ہژدہ مڑداثہ دریشکہ سڑدارا

ترجمہ:۔

سو آدمی بہرام خان مزاری نے لکھوائے

پچاس افراد بالائی بزدار نے دیئے

اٹھارہ آدمی دریشک سردار نے دیئے

ایک عجب مخمصہ تھا۔ بلا وجہ بلا سبب اپنے عزیزوں دوستوں کے دور دیسوں میں دفن ہونے کا تصور لرزانے والا تھا۔پھر، یہ بھی عقل سے بالا بات تھی کہ خود اپنا وطن توانگریز  کے قبضے میں ہو، اورآپ اُس کی خاطر جا کر  جرمنی سے لڑیں۔

چنانچہ، بہت غورو فکر کی ضرورت تھی۔ ٹھوس فکری بنیادیں تو موجود تھیں مگر ٹھوس عوامی بنیادیں بھی ضروری تھیں۔ لوگوں کو قائل کرنا، اُنہیں بحث مباحثے میں سے گزارنا اور پھر شعوری فیصلے کو عوامی تائید کے بعد لاگو کرنا تھا۔ دانشوروں کی دلیلیں تھیں۔ شاعروں کے اشعار تھے اور ایک دوسرے سے بحث مباحثہ تھا:

ولایت بیثہ ٹھگائی

تنڑیں او سنگ و بٹائی

جہوذ بڑتہ پہ روباہی

وطن گپتہ پہ داناہی

ہنر بازنتی ٹھگائی

جہوذی کار و دروہائی

گہینا ذاتہ لوٹائی

انعاماں داث و پہرائی

ہماں کہ نوکرنت جاہی

نہ گوں سیاہکارہ شرمائی

دینت مڑداں پہ چندائی

وطن داثیش پہ مستائی

کثیش پہ پیسواں بھائی

ترجمہ:۔

انگریز ٹھگ نکلا

تنڑیں‘سنگ اور بٹائی نامی ٹیکس

کافر نے لومڑی کی چالاکی سے سب کچھ ہتھیا لیا

۔(وہ) چالاکی سے ہمارے وطن پر قابض ہوا

اسے ٹھگی کی بہت سی چالیں آتی ہیں

اس کے ظالمانہ اور دغا باز کام ہیں

اچھے اچھوں کو پاس بلاتا ہے

انعام دیتا ہے عزت بخشتا ہے

وہ‘ جو کہ ہمیشہ نوکر ہیں

کسی سیاہ کام سے نہ شرمائیں

دیتے ہیں چندے میں افراد

ایسے لوگوں نے وطن بطور تحفہ دیدیا

پیسوں پر بیچ دیا

 

بہر حال مری عوام الناس نے فیصلہ کیا کہ ہم بھرتی نہیں دیں گے۔ نتیجہ خواہ کچھ نکلے ہم انگریز سے تو لڑیں گے مگر انگریز کے لیے نہیں۔ اگر لڑنا ہی ہے تو وطن کے لیے  وطن کے اندر ہی قربان ہوا جائے۔ دوسروں کے لیے سات سمندر دور بے گورو کفن مرنے میں کیا رکھا ہے۔

مگر مری عوام الناس کی طرف سے ایک کمال فیصلہ کیا گیا۔ وہ یہ کہ اگر قومی پیمانے پر بلوچ کو اکٹھا نہ کیا جاسکے تو کم از کم قبیلہ کے سارے لوگوں کو تو شامل کیا جائے۔ دانشور نے ”کامن سینس“کی یوں عکاسی کی:

مری تئی ھیل ایں جمارا

کنئے کم عقلیں کارا

مڑئے دیماگوں سرکارا

کئے ءَ زیری ہمے بارا

بغر ژہ راجہ سڑدارا

ترجمہ:۔

مری تیری پرانی عادت ہے

کہ کم عقلی کرتے رہتے ہو

انگریز سرکار سے لڑتے ہو

تو یہ بوجھ کون برداشت کرے گا

ما سوائے قبیلے کے سردار کے

اُس کے نتیجے میں وفد بھیجا گیا سردار کی طرف۔ اور نتیجہ یہ نکلاکہ:۔

چڑثہ مومنیں سڑدار

الٰہی سورثئی ستار۔۔

ترجمہ:۔

مومن سردار گھوڑی پہ سوار ہوا

خدائے ستار کو پکارتا ہوا

عوام کا اِنہ وانکار حتمی تھا۔۔۔ اور اُس زمانے میں انکار و اقرار تو قبیلے کے سب سے ذمہ دار شخص یعنی سردار کو کرنا تھا۔ اور سردار خیر بخش اول نے عوام کا یہ انکار سرکار کو پہنچادیا۔ چنانچہ انکار ہوگیا۔

انگریز نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے کسی بھی قیمت پہ مری عوام کو بھرتی پہ راضی کرنا چاہا۔سبی کا پولیٹیکل ایجنٹ خود کاہان گیا۔ تین دن تک ڈیرے ڈالے، مگر منت سماجت اور لالچ و دھمکی کسی کام نہ آئے۔

خیر بخش (اول)نے اس پس منظر میں انکار کیا کہ محترم عزیز بگٹی نے ایک دستاویز کے حوالے سے

”مسٹر ایچ۔ ڈاسس نے (جو سر ریمزے کے بعد ایجنٹ گورنر جنرل بلوچستان تعینات ہوا تھا) نواب خیر بخش خان مری سے ملاقات کے بعد بلوچ سرداروں کی جانب سے انگریزی فوج میں بھرتی دینے کے سوال پر مسٹر ڈینس برے ڈپٹی سیکرٹری محکمہ خارجہ اور سیاسی امور حکومت ہند کو ایک خفیہ مراسلے میں سبی سے 18 جنوری1918 کو تحریر کرتے ہوئے رپورٹ کیا کہ فوجی بھرتی ٹھیک ٹھاک طریقے سے جاری تھی۔ 15دسمبر1917 کو وہ کچھی گیا تو وہاں بھرتی ہونے والوں کی لائن لگ گئی۔ قلات کے سردار بڑھ چڑھ کر جوانوں کو بھرتی کے لئے پیش کررہے تھے۔مگسی اور رند قبائل کے درمیان بھرتی ہونے کے سلسلے میں ایک مقابلہ تھا۔ اسی طرح بنگلزئی اور شاہوانڑیں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت کرد اور لہڑی قبائل کی تھی۔

”مینگل سردار تو بہ نفس نفیس سلطنت برطانیہ کی خاطر اپنے آپ کو حاضر کرنے کو تیار ہوگیا۔ لیکن اُسے بتایا گیا کہ اس کا جذبہ وفاداری اپنی جگہ لیکن حکومت کو اس کا قبائلی دستہ درکار ہے۔ جبکہ اسی دوران سبی کے لوگ بھی بھرتی کے لئے پیش ہورہے تھے۔ جن میں مرغزانڑیں قبیلہ کے سردار کا بیٹا بھی شامل تھا۔ میڈیکل ہوجانے کے بعد اُسے رجسٹر کیا گیا۔ کپٹن ہنڈ جو قلات کے علاقوں سے بھرتی کا انچارج ہے اس بات پر بے حد خوش ہے کہ بھرتی کے لئے آنے والے جوانوں کی یلغار حیران کن ہے۔ وہ ان کے اندراج اور میڈیکل کے لئے اعانت کا طلب گار ہے۔ ہم نے اگرچہ احکامات جاری کیے تھے کہ بھرتی شدہ افراد کو126 اور 127 کمپنی میں شامل کیا جائے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ قلات سے بھرتی ہونے والوں پر مشتمل ایک پورا رجمنٹ بنا نا ہوگا۔ بھرتی کے ضمن میں اس والہانہ جوش و خروش پر اسے حیرانی اور خوشی ہے“۔

ایسے میں خیر بخش نے انکار کردیا۔ایسا نہیں ہے کہ خیربخش عام سردار تھا۔ اسے تو انگریز نے ہر لحاظ سے خریدنے اور پالتو بنانے کی کوشش کی تھی۔انگریزوں نے اپنی لومڑی گیری کے ذریعے اُسے قابو میں کرنے کی انتہائی کوششیں کیں۔ یکم جنوری 1903کواُسے نواب کے خطاب سے نوازا گیا اور جون 1915 میں اُسے سی آئی ای (کمپینین آف اِنڈین ایمپائر) بھی بنا دیا گیا۔ مگر اُن پر شکوہ خطابات اور نوازشات کابھلا چٹانوں پر بھی کوئی اثر ہواہے؟۔اس لیے ہم بار بار دھرانے پہ مجبور ہیں:

ماث تی بچے نیاری

نامے بی خیر بشک نواو

گوانزغہ لولی حلالاں

آں کہ ماثا داثغاں

ما ترا مڑداں نہ ذوناں

باجے ژہ جنگا سوا

جنگہ سامانا کثیا

دیر مہ خن بیا یہ برّا

مڑد ترا ہرچی گزریں

کلاّں کاراں گمبذا

 

ترجمہ:۔

کوئی اورماں ایسا بیٹا نہ جن پائے گی

جو نواب خیر بشک جیسا ہو

۔(تمہیں) پنگھوڑے کی لوریاں حلال ہیں

جو کہ ماں نے دی تھیں

”ہم تمہیں نفری نہ دیں گے

جنگ کیے بغیر

جنگ کا سامان کر کے

فوراً آ جاؤ

تمہیں جتنے آدمی چاہییں

میں سب کو گمبذ لاؤں گا“

یہی کافی نہیں، دانشور، ملا اومر، نے قوم کی یوں ترجمانی کی تھی:۔

مری ئے تات و پچارا

نہ ذؤں فوجاں ما سرکارا

ھذا یکّن و برحقیں

مری ماں لیکواں لکھیں

 

ترجمہ:۔

مری قبیلے میں ہر جگہ یہ بات تھی

۔(کہ)ہم سرکار کو فوجیں نہ دیں گے

خدا واحد اور برحق ہے

مری لاکھوں کی تعداد میں ہے

ایک اور شاعر نے اس معاملے کو یوں بیان کیا:۔

سوآل کُثغا ویسرایا گؤر تمن ءَ مسترا

دَے مناں مڑداں مروشی جنگیں مئیں گوں جرمنا

ہاکثہ کلے نواواں منث ایش پہ یہ دّفا

آتکہ خیر بخش مری ئے داشتئی شاہانی سرا

لوٹغا پائے نہ ڈاہی کئے ترا مڑدانہ دا

مئیں ترا مڑداں جواویں گڑ بروہندا پذا

ترجمہ:۔

وائسرائے نے قبائل کے سربراہوں سے درخواست کی

جرمن کے ساتھ میری جنگ ہے مجھے جنگ کے لئے آدمی دے دو

سارے سرداروں نے یک زبان ہو کر ہاں کر دی

مگر خیر بخش مری اپنے موقف پر اڑا رہا

مانگنے سے کوئی کسی کو چار آنے نہیں دیتا میں تمہیں آدمی کیسے دوں گا

میں بھرتی دینے سے انکار کرتا ہوں، واپس چلے جاؤ

انگریز نے اپنی سامراجی جنگ کے لیے سپاہی بھرتی کرنے کی ایک اور کوشش کی۔ اور اس بار مری کے پڑوسی قبیلہ لونڑیں کے سردار نواب خان لونی کو قاصد بنا کر مری کے پاس بھیج دیا۔

آتکہ لونڑیں نواو خاں

گون اثی حالے دلی

اغ مری جنگا نہ ذی ئے

ترا نوکری ہندارسی

چاردہ سال معافیں تئی ڈیھا

اشتہ ٹھیکا یا نہ گیڑ

 

ترجمہ:۔

نواب خان لونی آ گیا

اُس کے پاس دل کو لگنے والی خبر تھی

مری قبیلہ اگر تم (ہم سے)جنگ نہ لڑو

تو تمہیں گھر بیٹھے ملازمت ملے گی

ہر قسم کے ٹیکس سے

تمہارا علاقہ چودہ سال تک معاف

چنانچہ اس بار ٹھوس پیشکشیں تھیں۔انگریز نے قاصد نواب خان لونی کے ذریعے زمینوں کے مالیے سے14 سال تک معافی دینے  کا وعدہ کیا۔ اس کے علاوہ مری قبیلہ کو ملازمتیں دینے کی پیشکش بھی کردی۔ مگر بجائے پیشکش ماننے کے ھوران نامی ایک سومرانڑیں مری نے نواب خان پر تلوار سے وار کیا۔ نواب خان شدید زخمی ہوگیا اور بعد میں مر گیا۔

تب سفارتی پہل کاری ہوئی۔ریاستِ کلات کے سرداروں سے لے کرکاکڑ، بگٹی اور کیترانڑ سرداروں کو خیر بخش کایہ پیغام پہنچایاگیا۔

”حکومت سے مذاکرات ناکام ہوگئے۔ یورپی میدان ِ جنگ میں گمنام اور بے گور و کفن موت مرنے سے بہترہے کہ اپنے وطن پہ مرا جائے“۔

ایک حصے کا انکار سن کر بلوچستان بھر میں انکار پھیل گیا۔ مزاری قبیلہ اب سو افراد دینے کے اپنے وعدے سے دستبردار ہوگیا، بزدار نے بھی اب 50آدمی دینے سے انکار کردیا، دریشک کے اٹھارہ آدمی بھی نہ ملے۔ بھرتی دینے کے لیے بہت پر جوش دو جہلاوانی سرداروں کو وہاں کے عوام نے قتل کردیا۔ کچھی میں بھرتی ہونے والوں کی لگی لائن ٹوٹ گئی۔ مگسی اور رند قبائل کا جوش بھی ٹھنڈا پڑا۔ اسی طرح بنگلزئی، شاہوانڑیں، کرد اور لہڑی میں بھی بھرتی کی کامیاب کاروائی رک گئی۔ مینگل سے لے کر مرغزانی تک سب نے اپنے وعدے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ پہلے مری بھرتی دے تب ہمارے وعدہ کے ہوئے افراد دیے جائیں گے۔

عوام کے ایک حصے کے انکارنے ہر جگہ انکار کی صورت لے لی اور انگریز کا اتنا بڑا منصوبہ ناکام ہوگیا تھا۔ یہ صرف ان کے زخمی کرنے یا حکم عدولی کا معاملہ نہ تھا بلکہ یہ بھرتی انگریز کی سخت ضرورت بھی تھی۔ عالمی جنگ میں اُسے لڑاکا لوگوں کی اشد ضرورت تھی۔ مگر اُس کی ساری کوشش چوپٹ گئی۔

صرف یہی نہیں۔ بلکہ اتنی بڑی حکم عدولی کو اگر برداشت کیا جاتا تو پھرتو انگریز کی کمزوری عیاں ہوجاتی اور پوری بلوچ قوم میں بغاوت پھوٹنی تھی۔ اور پھر اُس بغاوت کو ہندوستان بھرمیں پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔

لہٰذاانگریز نے مری کو سزا دینے کا فیصلہ کیا اور اعلان کیا کہ وہ آدمی زبردستی بھرتی کرکے لے جائے گا۔

اِدھر،عوام نے بھی بیٹھ کر انگریز حملے کا انتظار نہیں کیا۔ اُس نے چونکہ اُس زمانے کے سپر پاور کو چیلنج کیا تھاتو بڑی تباہی کا سامنا بھی کرنا تھا۔فوج میں بھرتی کے لئے آدمی دینے سے مری کا انکار واقعتا ایک بغاوت کے مترادف تھی۔ یہ بغاوت تو ہوگئی۔چنانچہ عوام نے خود ہی  offensive جنگ شروع کردی اور حکومت کے زیر کنٹرول آس پاس کے دیہات تباہ و برباد کرد یے۔ حکومت کے کچھ کرنے سے پہلے ہی سیوی کا سارا علاقہ آزادی پسندوں کے زور کے نیچے تھا۔ تلی اورہانبی کے دیہات تباہ کردیے گئے۔

مری نے حسبِ وعدہ انگریز کے گنبذ نامی قلعہ ہی پرحملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ عوام اپنی روایتی ہنگامی جنگی پیغام رسانی کے ذریعے دور دراز سے اکٹھے ہونے لگا۔ جنگ جنگ کے گونجتے الفاظ نے ہر پہاڑ اور ہر وادی سے وطن پرستوں کو اکٹھا کیا۔ ذرا دیکھیے کن کن علاقوں سے لوگ امڈ امڈ کر محاذِ جنگ پہ جانے لگے:

 

چڑی کنگرؔ ژہ کاہاناؔ

بکوناں آتکہ بکّانا!!۔

پلنگہ پولوں آزمانا

خُدایا آڑتہ میدانا

اُڑثہ کوہ سلیمانی!۔

سِمچھؔ و سونڈھؔ وکشکاؔنی!!۔

مُقیمی کوہ دَربھاؔنی!۔

بُنا ماوندؔ و گواثاؔنی!۔

دھمثہ کاشذاں نیلیؔ

زئے ؔیو ڈونگانؔ و گمبُولیؔ!!۔

بہاذر آتکغاں ھِیلی!!۔

 

ترجمہ:۔

کُنگر کاہان سے گھوڑی پر بیٹھتا ہے

بہادری کی باتیں کرتا ہوا

ارے ہم تو انگریز کو آسمانوں میں ڈھونڈ رہے ہیں

یہ تو یہیں زمین پر آگیا ہے

کوہِ سلیمان کی ساری خلقت امڈ آئی

سِمچھ، سونڈھ اور کُشکانی

مقیم وقدیم کوہِ دربھانی

اُس سے آگے ماوند اور گواثانی

قاصد دوڑ پڑے نیلیؔ کو

زئے،ڈونگان اور گمبولی کو

باور والے بہادر آئے!۔

 

”ینگ بلوچ“ پارٹی بننے سے قبل ہی ہمارا دانشورسماجی سائنس کے مغز کو پہچان چکا تھا۔ وہ استحصالی نظام کے اصل رگ تک پہنچ چکاتھا۔ دیکھیے، وہ نا خواندہ قبائلی اُس وقت سرمایہ داری کو سمجھ چکا تھا: ”پیسو ہ داث و پیسو ہ کٹی“ (پیسہ دے کر پیسہ کمانا)۔

”پیسہ دے کر پیسہ کمانا“ تو سرمایہ داری نظام کی شہ رگ ہے۔ ایک سو برس بعد، آج کے ہمارے کرایہ پہ مقرر پی ایچ ڈی وزیرِ خزانہ تک یہ فارمولا نہیں جانتے۔

یہاں بلوچ تاریخ ایک دلچسپ اور نئے پڑاؤ میں داخل ہوتاہے۔ ہماری شاعری میں ایک نیا رنگ پیدا ہوا۔انگریزی دور جو کہ جنگوں کا دور تھا۔ وطن اور گل زمین پر مرمٹنے کا دور تھا،بہادروں کا دور تھا، بزدلوں،بھگوڑوں اور اُس کا ساتھ دینے والوں کو برا کہنے کا دور تھا۔ اور بلوچوں پر انگریز حاکمیت کے اس 30 سالہ دور میں شاعر وں نے نہ صرف خود عوام کے ساتھ شانہ بشانہ رہ کر جنگ کی بلکہ ہر بہادر کی توصیف کی،بزدل پر پھٹکار بھیجی،بڑھ بڑھ کر عوام کو ساتھ لیا۔ ان کی فتح و شکست میں برابر کا حصہ دار رہا۔

اس دور کا شاعر وسیع النظر بھی ہے اور حساس بھی۔ اس نے سماج میں طبقات کی موجودگی اور بالائی طبقات کے ظلم و ستم کو بری طرح محسوس کیا۔

نیم کٹائی سرا ایں

نیم ٹلّی نیم شفاں

نیم دفی زمبے نہ غندی

نیم داری نوکراں

نیم گوں شاذی مراذاں

نیم نالی نیم شفاں

ترجمہ:

کچھ لوگ پلنگوں پر استراحت کرتے ہیں

باقی آدھی راتوں کو دربہ در ٹھوکریں کھاتے ہیں

کچھ کے پاس ایک نوالہ روٹی نہیں

دوسروں کے نوکر چاکر ہیں

کچھ تقریب و جشن میں مست

کچھ کی فریادیں، آہ و بکا۔

 

انگریز کو جب گنبذ پہ مری حملے کے ارادے کی خبر پہنچی تو اُس  نے فوری طور پر قریبی دکی سے فوجی کمک لی اور  مری کے سرحدی علاقے گنبد میں ڈٹ گیا۔اس نے قلعہ کی دیواروں کے اوپر توپ اور گولیاں برسانے والی مشینیں نصب کردیں۔

تین ہزار مری جمع ہوکر 19  اور  20  فروری  1918 کی درمیانی شب ڈیڑھ بجے گنبذ قلعہ پر ٹوٹ پڑے۔گمبذ کی جنگ میں خیر بخش اول، وزیر سومرانڑیں اور راہزنؔ شامل تھے۔ اِن راہنماؤں کو مری عوام نے جنگ کے اندر جانے نہیں دیا۔

وزیرئے تیغ حراسانی

ترا نیغ دعائیں پیرانی

قرآن و کچ ءَ سیذانی

الغرض آزادی پسندوں، شہیدوں، کہ زخمیوں تک کی پوری لسٹہماری شاعری میں محفوظ ہے۔

کہتے ہیں کہ جب اس جنگ کے لیے لوگ جا رہے تھے تو ایک غریب چرواہا بھی اپنی چپل کے بند چڑھانے لگا۔ بیوی نے طنز کیا کہ تم اور جنگ؟۔ مگرحب الوطنی کے لیے چرواہا ہونا ممنوع تونہیں؟۔ سامراج دشمنی کے لیے غریب ہونا منع تونہیں؟۔خاوند سنجیدہ تھا تو شکی مزاج خاتون نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ”اچھا، توپھر گوروں کے سب سے بڑے افسر (کو قتل کر کے اُس) کی ٹوپی نشانی کے طور پر میرے لیے لانا“۔

ہمارا یہ معصوم وطن پال چرواہا‘ جنگ میں شامل ہوا۔ اس کے دل میں سمایا ہوا تھاکہ فتح شکست سب جائے جہنم میں، مجھے توبیوی کے مارے ہوئے طعنے کا بندوبست کرنا ہے۔ روایت ہے کہ وہ جنگی ڈسپلن اور قوانین توڑ کر کسی طرح فصیل پھلانگ گیا۔ اُس نے جاکرگورے (انگریز افسر)کو قتل کرڈالا اور اس کی ٹوپی اٹھا کر پلٹا۔ مگرواپسی پر فصیل پھلاندتے وقت اُسے گولی لگی۔ اُس نے ٹوپی باہر اپنے قبائل کی طرف پھینک دی اوراُسے اپنی بیوی تک پہنچانے کی وصیت کی۔ ساتھ میں ایک فقرے پر مشتمل پیغام بھی تھا: گمبذ کی اس جنگ کے بعدبہادروں کو طعنے نہ دیا کرو!۔

 

گڑتغیں مڑداں رووخاں

شوار پولیں شاھذی

کُشتغیں گورا منی ایں

نواں کننتی مڑوثی

مئیں سلاماں دینت لالا

تہ نواں بئے وزتی

براث و برازا تک و دلی یار

کشتغنتاں ھر کسی

طعنہ آں مڑداں مہ جنیں

گمبذہ جنگا پذا

ترجمہ

واپس زندہ جانے والو

میں تمہیں گواہ بناتا ہوں

قتل کردہ گورا میرا ہے

کوئی اور اسے اپنا نہ جتائے

میری محبوبہ کو میرا سلام کہو

تم فکر مند نہ ہونا

۔(کہ) بھائی بھتیجے اور عزیز دوست

ہر کسی کے مارے گئے ہیں

۔(ہاں)گنبد کی اس جنگ کے بعد

بہادروں کو طعنے نہ دینا

اسی جنگ میں ایک شیرانی نے اعلان کیا کہ میں ”دن مقرر ہیں“ کو نہیں مانتا۔ میں ابھی ابھی شہید ہونے لگا ہوں۔ ہوا یوں کہ اس کا اکلوتا بیٹا پہلے ہی شہید ہوچکاتھا۔ انگریز سے اس قدر نفرت اور غصہ کہ اس نے کہا ”لوگ کہتے ہیں انسان مقررہ دن مرجاتا ہے۔ میں ابھی دیکھتا ہوں میرا وقت کیسے پورا نہیں ہوتا؟“۔یہ کہہ کر وہ ایک اونچی جگہ پہ کھڑا ہوا، زور زور سے چادر ہوا میں لہرانے اور انگریز کو پکار پکار کر اسے گالیاں دینے لگا۔(بے بس کی جنگ!)۔ گولی اُسے لگ گئی۔ اور وہ وہیں گر کر شہید ہوا۔(میں اِس مضبوط و مقبول روایت کا پیٹھ شعری ثبوت سے تھپکنے میں ابھی تک ناکام ہوں۔لیکن آنے والا محقق یہ شعری ثبوت ضرور ڈھونڈ لائے گا!)۔

قلعہ کے افسر کرنل گوآسینؔ نے لکھاکہ:میں نے”انھیں  غول واژدھام میں آتے ہوئے دیکھا۔۔ وہ ایک ناگوار چند منٹ تھے کہ ہم نے ان وحشیوں کو قلعے کے اندر اور چھتوں کے ساتھ ساتھ دوڑتے دیکھا۔۔ رسیوں والی اپنی 100سیڑھیوں کے ساتھ یہ ”اژدھام“ قلعے میں داخل ہوتا رہا۔

قیامت آچکی تھی۔انگریز کی توپ اور بندوقوں نے شعلے اگلنے شروع کر دیے۔دونوں اطراف میں فوجی قوت مساوی نہ تھی۔ کوئی میل ہی نہ تھا، کوئی مقابلہ ہی نہ تھا۔ ایک طرف انگریز کی قلعہ بند سٹینڈنگ آرمی تھی جو اپنے ڈسپلن اور برتر جنگی ٹکنالوجی کی نعمت سے سرفراز تھی۔(شاعر کے بقول: پریٹ (پریڈ)،اور شول (سیٹی) والی گورکھا، سکھ، ہزارہ پر مشتمل سٹینڈنگ آرمی تھی)۔ اور دوسری طرف مری عوام محض حب الوطنی رکھنے والوں کا ایک مجمع تھے۔ لڑائی شروع ہوتے ہی ڈسپلن اور مشترکہ کمان تتر بتر ہوچکا تھا۔ ہر شخص ذاتی بہادری میں اجتماعی مقصد اور ضروری داؤ پیچ دفن کر چکا تھا۔ مری اپنی خستہ حال تلواروں اور بے معنی ڈھالوں کے ساتھ صبح صادق تک جدید ٹکنالوجی اور ایک سٹینڈنگ آرمی کے سامنے ڈٹے رہے۔

سغاراں چاپ و چلکارا

ھُلک و ہونہ شیکارا

مشین و رئیفلاں چَاٹیں

چھَڑا گانڈی ئے نارھاٹیں

گِلّٹیں تیرہ چیھانٹیں

چَھرایاں پھیرو ہینژاٹیں

 

ترجمہ:۔

تلواروں کا رقص و آہنگ ہے

خون کی دھاریں،چھلکاوے

مشینوں رائیفلوں کی تالیاں ہیں

صرف بندوقوں کے چنگھاڑہیں

یک فائری بندوق کی سائیں سائیں ہیں

چھروں کی گونجیں ہیں

ملّا اومر کا طرز بھی دیکھیے:

مڑد خاں وہمیں گوں جنگا

شمشتہ کوڑو ءَ دھندا

روغی گنبذ ءَ کندھا

پلنگ ءَ توپہ زمبھارا

دھمثہ شف دہ چیار پہرا

مشینے ریفلی گواراں

گلٹی تیر پہ انگاراں

مزار پہ ڈوبرا داراں

ترجمہ:۔

لڑا کا تو جنگ کا ہی سوچتے ہیں

انہوں نے دنیا کے دیگر امور فراموش کردیے

رسی کی سیڑھیاں بنانے لگے

اس لیے کہ گنبذ کی فصیل پار کرنی تھی

پلنگ کے توپوں کا شور تھا

رات آخر تک ڈھلتی گئی

رائیفل اور مشینیں گولیوں کی بارش برساتی رہیں

انگارے بنی آ  ہنی گولیاں تھیں

شیر، انہیں اپنے سینوں پہ جھیلتے رہے

ہمارے قبائل کو اپنے اسلاف کے بارے میں مفصل جاننے کا شدت سے اشتیاق رہتا ہے۔ اس لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ گمبذ کی اس جنگ میں 9سالارانڑیں شہید ہوئے: لنڈا، ولیا، شاہل، سلاماں۔(سالارانڑیوں کے باقی پانچ نام دلیل اور جادا مجھے نہ بتا سکے۔یہاں سومرانڑیں کے چار بہادر شہید ہوگئے: حکیم خان، شہباز ………… (دو اورپاک نام میری نا اہلی کی نذر)۔

ٹکنالوجی نامی دیوتا نے جنگ کو شروع ہی سے یک طرفہ بنا رکھا تھا۔ بدی کے سارے در مری پہ کھول دیے گئے تھے۔ صبح سویرے تک لڑائی جاری رہی۔ تین افسر مارے گئے اور پانچ افسر زخمی ہوئے۔موتی جیسے117‘گراں ڈیل مری قلعے کی دیواروں کے ساتھ اور احاطے میں اپنی جان پہ نچھاور کر کے گنبذ کے قلعہ کو یاد گار بنا گئے،  پچاس زخمی ہوئے۔غیرت‘ شان، افتخار اور حمیت بچ گئی‘ مری لشکر شکست کھا گیا۔

اے جی جی نے دوسرے قبائل میں مزاہمت کے ”انفیکشن“ کے پھیلنے سے خوفزہ ہو کر اپنے افسروں کو لکھا کہ وہ یقینی بنالیں کہ گنبذ میں ہلاک ہونے والے مریوں کی ”زیارتیں“ یا شہیدوں کے مقبرے تعمیر نہ ہونے پائیں۔ (1)۔۔۔۔

قصہ جاری ہے۔ بقول فہمیدہ ریاض:

ابھی رواں ہے کارواں، دلوں میں نصب ہیں نشاں

ہماری داستاں ابھی تمام تو نہیں ہوئی

 

حوالہ جات

1۔AGG Dobbs to PA Sibi at Gumbaz.Marri Outbreak. File 5:23 Feburary-27. Feburary 1918 AGG /ER/BA/CS/Quetta. p. 150

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے