جلدی اٹھو سمیر میں نے ناشتہ بنا دیا ہے ٹھنڈا ہو رہا ہے۔فریحہ کو بھی اُٹھاؤ دوپہر کے ایک بج رہے ہیں۔ امی زور زور سے دروازہ بجاتی رہیں اور بولتی رہیں۔

۔1              سمیر کی شادی ہوئے آج تیسرا دن تھا۔ بہت خوش تھے سب گھر والے۔سمیر زاہد اور فہمیدہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ بہت لاڈ پیار سے ماں باپ نے پالا۔فہمیدہ ایک گھریلو خاتون تھی۔ جو سارا دن گھر کے کاموں میں مصروف رہتی۔ ایک سنجیدہ مزاج اور سلجھی ہوئی خاتون جس نے ساری زندگی صبر کیا کبھی ایک لفظ منہ سے نہ نکالا۔

                بیاہ کر جب سسرال آئی تو ساس سسرنندیں اور چھوٹے دیور اور زاہد سمیت گھر والوں نے استقبال کیا۔ ساری زندگی گھر والوں کی خدمت کرتے گزری۔زاہد ایسا انسان جو پہلے ماں باپ، بہنیں اور بھائی کی سنتا پھر بیوی کی باری آتی۔

                زندگی کے تمام برس ایسے گزارے۔ چپ کر کے اپنی خواہشات کو دبا کر جیتی رہی۔پڑھی لکھی تو تھی پر نوکری نہ کی گھر کے کاموں میں جت گئی۔ اللہ نے جلد ہی اولاد سے نوازا ایک ہی بیٹا دیا۔وہ اس کی تربیت میں لگ گئی۔

                سمیر منہ ہاتھ دھوکر فریحہ کے ساتھ ڈرائینگ ٹیبل پر آیا۔ فہمیدہ انتظار میں کھڑی تھی۔ فوراً فہمیدہ نے ناشتہ لگایا اور خود ساتھ بیٹھ گئی۔

                سمیر نے ناشتہ کیا اور فہمیدہ کو کہا۔ اماں ہم دونوں بازار جا رہے ہیں واپسی پر فریحہ کے گھر جائیں گے اور رات کو ڈنر باہر کریں گے۔ آپ انتظار نہ کرنا اور زور سے ماں کو گلے ملا۔

                سامنے سے زاہد کمرے میں داخل ہوا تو ماں بیٹے کو یوں دیکھ کر فوراً بولا کیا محبت ہے جی۔ کبھی ہمیں بھی ایسے گلے ملو صاحب زادے۔

                ابا ضرور آئیں ہمارے ساتھ بیٹھیں۔ گلے کیا اتنا بڑا ہوگیا ہوں گود میں اٹھا لوں گا۔ فہمیدہ اور فریحہ دونوں ایک ساتھ مسکرا اٹھیں اور ہنستے مسکراتے ماحول سے دونوں تیار ہونے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ تیار ہو کر آئے سلام کیا اورباہر کی طرف روانہ ہوئے۔ فہمیدہ کی نظروں میں اپنا وہ منظر ایک دم گھوم گیا۔ جب شادی کا تیسرا دن تھا فہمیدہ نے زاہد کو کہا امی کے گھر چلتے ہیں۔ تو زاہد فوراً کمرے سے باہر نکل گیا۔سردیوں کے دن تھے بالکل اِیسے جیسے سمیر کی شادی یخ سردیوں میں کی گئی۔

                کافی دیر بعد زاہد کمرے میں آیا اور فہمیدہ سے بولا رات کو چلیں گے۔ ابا/اماں باہر صحن میں بیٹھے ہیں۔ابا کو یہ پسند نہیں کہ ہم باہر جائیں۔ جب ابا سو جائیں گے تو تسلی سے چلیں گے۔ جواب سن کر فہمیدہ اور کاموں میں مصروف ہوگئی۔ رات ہوئی آٹھ بجے سردیوں کی شدید رات اور ٹھنڈ اور دونوں چپکے چپکے گھر سے نکلے کہ کہیں اماں ابا نہ دیکھیں اور فہمیدہ ماں کے گھر گئی۔ سارے راستے کپکپاتے گئے۔ امی ناراض الگ ہوئیں اتنی دیر سے رات کو کیا ضرورت تھی آنے کی۔ ٹھنڈ لگ جائے گی بیمار ہو جاؤگی اور چپ چاپ فہمیدہ گھر کو واپس ہولی۔ ایسا جانا جہاں خوشی کی بجائے شرمندگی،دکھ، ڈر شامل ہو کب راس آتا ہے۔ پھر ایسا ہونے لگا۔سردیوں کو بزرگ سارا دن باہر بیٹھتے اور فہمیدہ نے کہیں جانا ہوتا رات کا انتظار کیا جاتا کہ زاہد کے ماں باپ کو میاں بیوی کا ایک ساتھ باہر آنا جانا پسند نہیں تھا۔ گرمیاں ہوئیں سارا دن ساس سسر اندر کولر میں بیٹھے رہتے۔جو نہی شام ہوتی ٹھنڈا وقت ہوا ساس سر باہر آبیٹھے اور رات گئے تک باہر بیٹھے رہتے اور سوتے بھی باہر تھے۔ یہ اسکو اجازت نہیں تھی کہ کبھی بھی باہر والدین کے گھر یا دوست احباب سے ملنے جا سکے۔

                سردیاں ہوتیں تو شدید سردی میں رات کو باہر جانے کو موقعہ ملتا گرمیاں ہوتیں تو شدید گرمی میں باہر جا سکتی پر اس نے اُف تک نہ کی۔

                آج بیٹے کو جاتا دیکھا تو یک دم سارا گزرا ہوا زمانہ آنکھوں میں سما گیا۔ اچانک زاہد نے آواز دی فہمیدہ کیا سور رہی ہو۔ اور فہمیدہ خیالوں میں سے واپس حقیقت کو لوٹ آئی۔

                سمیر بازار سے شاپنگ کر کے آیا تو ماں اور بیوی کا ایک جیسا سوٹ خرید کر لایا۔فہمیدہ نے دونوں سوٹ بڑے پیار سے دیکھے پھر اپنے پاس شاپنگ بیگ رکھا اور پیار بھری نظروں سے بیٹے کو دیکھا اور بولی!

                ”سمیر میرے چند۔ ماں کی عمر اور بیوی کی عمر میں فرق نہیں نظر آیا۔ اماں محبت دیکھو بیٹے کی۔ دونوں اُس کے لیے اہم اور خاص ہیں“۔

                بیٹا میں بوڑھی عورت اور تمہاری بیوی بچی ہے جوان ہے کیوں اسکا دل خراب کرتے ہو۔

                نہیں اماں فریحہ پیچھے سے آکر بولی بالکل نہیں اماں یہ آپ اور میں دونوں پہنیں گے ایک ساتھ۔

                نہیں۔کیوں چاہتی ہو لوگ مجھ پر باتیں کریں؟۔

                کیوں باتیں کریں گے لوگ۔اماں خیر ہے یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے۔ محبت ہے ہماری۔ لوگوں کو کیا۔

                اچھا اچھا بنا لوں گی چلو خوش ہو جاؤ۔

                دونوں بچے جب چلے گئے تو فہمیدہ کو برسوں پہلے کا منظر یاد آیا جب فہمیدہ دو سوٹ خرید کر آئی اپنی ساس کے لیے اور اپنے لیے۔ تو ساس نے جینا حرام کر دیا کہ کیوں بہو کیوں پہنے گی ایسا جوڑا نئی نویلی دلہن سے زیادہ ساس کی امنگیں تھیں جو اُسے کیسی پل چین نہیں لینے دی رہی تھیں۔

                زاہد کو بلا کر ہزار باتیں سنا دیں۔

                میرا دل نہیں جو میں شوخ لباس پہنوں میرے ارمان کہاں جائیں گے میرا شوہر بیمار ہے چل پھر نہیں سکتا پر زندہ تو ہے۔ نہ مجھے کیوں ایسا رنگ دے رہے ہو جو بیواؤں کا ہوتا ہے۔

                اماں اللہ اللہ کریں کیوں ایسا کہہ رہی ہیں۔اللہ تعالیٰ ابا میاں کو لمبی زندگی دے ہمارے سروں پر ان کا سایہ رہے۔ بس کر دیں اماں ایسی باتیں مناسب نہیں ہیں۔

                ہاں تم کو کیا سارا دن بیوی کے ساتھ رہتے ہو۔ ماں کی پرواہ نہیں۔ جو وہ کہتی ہے وہی کرتے ہو۔ ہمارا کوئی خیال نہیں۔اور زاہد چپ ہوگیا۔

فہمیدہ اسکا لٹکا منہ دیکھ کر اپنے کمرے کی طرف پلٹی۔اور سوچتی رہی کمزور مرد جو اپنی بیوی کو عزت نہیں دِلا سکتا تو وہ شادی کیوں کرتا ہے؟۔زاہد نے کبھی ماں اور باپ کو غلط نہیں کہا۔ یہ نہیں کہ بیوی سے لڑتا مگر جو ماں باپ کہہ دیتے وہی کرتا۔

                ماں نے کہا بیوی کو گھر چھوڑ آؤ،بیوی کو گھر چھوڑ آیا۔ ماں نے کہا بہنوں کو اتنے پیسے دو بیوی سے کہا اتنے دو۔ ماں نے کہا بہن کو یہ چیز دو زاہد نے وہی کیا۔ ماں نے کہا بہن کے گھر کام ہے زاہد اپنے سب کام کاج چھوڑ کر بیوی بچے کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔

                کبھی بیوی سے نہ پوچھا نہ مشورہ کیا نہ پہلے بتایا۔بس عین وقت فیصلہ سنا دیا، جا رہا ہوں، کر رہا ہوں کبھی تو کر آیا ہوں بتایا جاتا اور فہمیدہ حیرت سے سوچتی کیا یہ سب ایسے ہی رہے گا۔اگر تھوڑا مجھ سے بانٹ لیا جائے تو کیا میں رُوک دوں گی۔ پر زاہد جوانی اور ماں باپ کی فرمانبرداری میں تھا۔

                ہاں فہمیدہ کو کوئی اجازت نہیں تھی کہیں آنے جانے کی۔ بغیر پوچھے وہ قدم نہیں اُٹھا سکتی تھی۔ یہی سوچتے سوچتے اچانک فریحہ کی آواز سے خیالوں سے واپس لوٹی۔امی چائے لے لیں!

                اور وہ واپس آئی۔کئی سالوں کا سفر یادوں کی صورت پلک جھپکتے گزر جاتا ہے۔ یادیں تھیں بھی غم ناک سی۔ فہمیدہ خود کو بہت مصروف رکھتی تھی۔کبھی نہیں چاہتی تھی کوئی اذیت بھرا پل اُسے یاد آئے اور فہمیدہ نے خود کو اتنا مصروف رکھا گھر کے کاموں، سمیر کی پرورش، تعلیم میں کہ اُسے زاہد کی بے رخی بے اعتنائی پر تکلیف نہیں ہوتی تھی۔پر سمیرکی شادی کے بعد فریحہ سمیر کی ہر ہر خوشی پر اُسے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا دکھ یاد آتا تھا۔ اور گھنٹوں وہ احساس جرم میں گھومتی رہتی۔یہ کیا ہے۔کہیں کوئی نظر نہ لگ جائے۔ کیوں ایسا ہو رہا ہے میرے ساتھ ہی۔سوچتے سوچتے فہمیدہ نفسیاتی مریض بنتی جا رہی تھی۔

                چڑچڑی ہوگئی۔ اب اسے الجھن ہونے لگی۔جب سمیر اور فریحہ قہقہہ لگاتے نہ چاہتے ہوئے بھی جھڑک دیتی فہمیدہ فریحہ کو۔ اور بعد میں خود کو ہی کوستی یہ کیا کہا میں نے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فہمیدہ ایک نفسیاتی مریضہ بن گئی جو سمیر اور فریحہ کو دیکھتے ہی بڑبڑانے لگتی۔

                سمیر تیار ہو کر ماں کے پاس سلام کرنے آیا۔ فریحہ ساتھ تھی اور تیار تھی۔جیسے کہیں جانے کی تیاری کر کے آئی تھی۔ اپنی عادت کے مطابق سمیر نے ماں کو گلے لگایا۔ فہمیدہ نے پہلے بہو کو گھورا۔ کیا بات ہے صبح صبح کہاں چلی ہو۔

                گھر کو دیکھ لو میں تو کبھی ایسے نہیں جاتی تھی۔ سارے گھر کے کام کاج کرتی تم اُٹھتے ہی چلتی بنتی ہو۔بہو طور طریقہ سیکھو۔ اور فریحہ سمیر حیرانگی  سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔

                فریحہ پریشان نہ ہو جب امی ابا رات کو سو جائیں گے پھر باہر چلیں گے۔ جب تک تم گھر رہو شاید انکو اچھا نہیں لگتا ہم ایسے جائیں۔ فریحہ خاموش نظروں سے دیکھتی رہی۔ وقت گول لٹو کی طرح گھوما۔ آج فہمیدہ خوب روئی۔یہ میں نے کیا کہا کیوں میں ایسا کرتی ہوں۔ کیوں بچی کا دل دکھاتی ہوں سوچتی رہی اور روتی رہی۔

                فریحہ بھی آج خوب روئی۔یہ امی ایسا کیوں کر رہی ہیں۔ ہم سے کیا خطا ہوئی اور سمیر چپ رہا اور فیصلہ ہوا کہ سردیاں ہوں یا گرمیاں ماں باپ سے چھپ کر جانا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے