میں جب امّاں کی بیٹی تھی

افق سے بھی کہیں آگے

مہ و انجم کی محفل میں

بکھرتے تھے مرے نغمے

حسیں تھی زندگی میری

دھنک پر تھے قدم میرے

بندھا دو بول کا بندھن

تو باندی ہو گئی اس کی

بہن ہوں اب نہ بیٹی ہوں

بس اک بے عقل بیوی ہوں

تمنّائیں مٹا دیں سب

کسی کا دل ہی جیتا نہ

کسی کو رام کر پائی

نہ اچھی ماں ہی کہلائی

نہ اچھے بول سن پائی

گھٹن سے تنگ آکر اب

عجب خواہش یہ ابھری ہے

یہ رشتے توڑ ڈالوں سب

یہ ناتے چھوڑ جاؤں سب

بسوں اک ایسی بستی میں

جہاں اپنا نہ ہو کوئی

تعلّق ہو نہ بدگوئی

جہاں پر وقت یوں ٹھہرے

نہ شب آئے نہ دن گزرے

نہ کوئی آزمائش ہو

نہ ربطِ زندگی بکھرے

 

مگر ایسا کہاں ممکن

یہ بیڑی آخری دم تک

رہے گی میرے پیروں میں

میں بیوی ہی رہوں گی بس

کٹے گی عمر غیروں میں

سفر بیٹی سے بیوی کا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے