(آواران)

 

زندہ درگور ہو گیا ہوں میں

تیرے بعد اور ہو گیا ہوں میں

کچھ سنائی نہ کچھ سجھائی دے

اندر ایک شور ہو گیا ہوں میں

آنسوؤں کے نصیب جاگے ہیں

ناچتا مور ہو گیا ہوں میں

میں اب تجھ کو بھول سکتا ہوں

اب ترے طور ہو گیا ہوں میں

اپنے پُرکھوں کی پیروی کر کے

خود نیا دور ہو گیا ہوں میں

۔۔۔۔۔

آئینہء خیال میں دیکھا نہ کر مجھے

میں نقشِ ناتمام ہوں سوچا نہ کر مجھے

آوارگی ء شوق ہو یا نیرنگی ء جنوں

اے وحشتِ خیال تماشا نہ کر مجھے

اک رازِ آشنا ہوں ترل دل کی سیج پر

اپی سہیلیوں سے بتایا نہ کر مجھے

لوحِ طلب پہ حرفِ امر کرے جو بن پڑے

لکھا نہ کریا لکھ کے مٹایا نہ کر مجھے

۔۔۔۔۔۔

طبع‘ خوشی سے گریزاں ہے، کیا کیا جائے

سکوں بھی بارِ دل و جاں ہے، کیا کیا جائے

جو پاؤں کانپ رہے ہیں، دھڑک رہا ہے دل

قریب کوچہ ء جاں ہے، کیا کیا جائے

نظر میں لاکھ قلعے ہوں بہار پر یاروں

ہمارا دل جو ویراں ہے، کیا کیا جائے

چلو لگاکے دو کش، دو گھونٹ ہی پی لیں

شمیمؔ حلقہ ء یاراں ہے، کیا کیا جائے

۔۔۔۔۔۔

کاسہ ء چشمِ ندامت کو لہو سے بھر دے

میرے احساس کے قطرے کو سمندر کر دے

دولتِ درد سہی، اشک کے گوہر ہی سہی

خاطرِ ناز جو چاہے‘دے وہی کچھ‘ پر دے

دشت ِ امید پہ سایہ ہے سرابوں کا ہنوز

کعبہ ء حسن سے اٹھتے ہی نہیں ہیں پردے

عشق کے دشت میں اشکوں کا سمندر لے کر

عمربھر پھرتا رہوں یوں ہی، مجھے بے گھر کر دے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے