تمام ختم ہوئے خوش گمانیوں کے ورق

سراب کھا گئے تیری نشانیوں کے ورق

 

زماں نہیں تھا وہاں پر مکاں کے آنسو تھے

جہاں سے چنتا رہا میں کہانیوں کے ورق

 

اک اور پھول گرا میرے دل کے بنجر میں

مگر بہے نہیں آنکھوں سے پانیوں کے ورق

 

بکھر گئے تو بکھرنے دو ایک اک کر کے

عمیق تھے ہی نہیں رائیگانیوں کے ورق

 

تمہارے  ہجر سے آئے تھے جو مرے حصے

جلا رہا ہوں انہیں بدگمانیوں کے ورق

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے