ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتابوں پر عابدہ رحمان کے تبصروں کی کتاب

                تبصرہ نگاری ہمارے ہاں ادب کی ’اچھوت‘ صنف ہے۔ کام یہ نہایت فن کارانہ ہے۔ لیکن ہم نے اسے وہی مقام دے رکھا ہے، جو ہم اپنے سماج میں فن کاروں کو دیتے ہیں۔ اور عالمی ادب میں اس کا وہی مقام ہے، جو اقوامِ عالم میں فن اور فن کار کا ہے۔ عالمی ادب میں تبصرہ نگاری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مارکیٹ میں کیا نیا اور بہتر پڑھنے کو دستیاب ہے، قاری  یہ جاننے کوآج بھی واشنگٹن پوسٹ یا ایمازون کی ’بیسٹ سیلر آف دی ویک‘ اور’بیسٹ سیلر آف دی مَنتھ‘ بکس کا جائزہ لیتا ہے۔ بڑے اشاعتی اداروں نے آج بھی اس کام کے لیے پروفیشنل تبصرہ نویس (Reviewer)رکھے ہوئے ہیں جو تازہ شائع ہونے والی کتابوں کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں۔ عموماً قاری انھی تبصروں کی مدد سے اپنے مطالعے کا انتخاب کرتے ہیں۔

                ہمارے ہاں اول تو تبصرہ نگاری کا کوئی رواج ہی نہیں رہا۔ معزز و مستند ناقدین اسے ’چھوٹا‘ کام جان کر اس سے گریزاں رہے۔ یا پھر کسی کو خوش کرنے کے لیے یک طرفہ رائے لکھ دی۔ اس سے اردو میں ’تقریظ‘ جیسی قبیح صنف کا بھی رواج ہوا۔ ادبی حلقوں میں باقاعدہ گروہ بندیاں کر کے لوگ ایک دوسرے کے لیے عرصے تک تبصرے کے نام پر تقریظیں لکھتے رہے۔ اس سے لکھنے والے کی تسکین کا سامان شاید ہوتا ہو، ادب کو اور قاری کو اس سے کوئی سروکار رہا نہ کوئی فائدہ پہنچا۔

                ہمارے ہاں پھر ہمارے نیم قبائلی رویے بھی اس کی راہ میں رکاوٹ رہے ہیں۔تنقید و تبصرہ جس غیر جانب داری اور سخت گیری کا تقاضا کرتے ہیں، ہمارے لکھنے والے ابھی اس کے عادی ہی نہیں ہو سکے۔ یہاں تبصرے کا واضح مطلب تعریف سننا ہے۔ ایسی تعریفی تحریریں نہایت پھیکی اور بے روح ہو کر رہ جاتی ہیں۔ نتیجتاً بلوچستان میں تبصرہ نگاری جیساشعبہ ایک طرح سے سو سال سے خالی ہی پڑا ہوا ہے۔

                ایسے میں ایک ایسی تبصرہ نگار سامنے آتی ہے جو مسلسل برسوں اس صنف میں ریاضت کرتی رہتی ہے اور ان تبصروں کو کتابی صورت میں سامنے لاتی ہے تو اس کی جانب متوجہ ہونے کا جواز تو ازخود پیدا ہو جاتا ہے۔ اس پس منظر کے علاوہ بھی عابدہ رحمان کے تبصرے قابلِ توجہ ہونے کے کئی جواز رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر؛

                اول، یہ تبصرے محض روداری میں نہیں لکھے گئے۔عابدہ  ان کتابوں کا شعوری انتخاب کر کے پچھلے چار سال سے مسلسل مطالعہ اور تبصرہ نویسی کرتی رہی ہے۔

                دوم، اس نے تبصروں کے لیے ایک ہی مصنف کا انتخاب کیا اور ان کے تمام تصنیفی کام کو اپنی تبصرہ نگاری کا ہدف بنایا۔

                سوم، سب سے اہم بات یہ کہ اس نے تبصرہ نگاری کومحض کتاب پہ رائے تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس میں ادبی چاشنی اور تخلیقی دلکشی بھرنے کی بھی سعی کی ہے۔

                یہ آخری نکتہ ہی دراصل ان تبصروں کو ایک خاص جہت اور ممتاز مقام دیتا ہے۔ میرا محتاط دعویٰ ہے کہ عابدہ نے تبصرہ نگاری میں ایک نیا اسلوب متعارف کروایا ہے، اسے ’تمثیلی تبصرہ نگاری‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ جس میں وہ کتاب کے متن پہ روایتی تبصرے کی بجائے اسے ایک قصہ اور کہانی کے انداز میں کچھ یوں بیان کرتی ہے کہ آخر تک قاری پہ یہ نہیں کھلتا کہ وہ کتاب پہ تبصرہ پڑھ رہا ہے، کوئی تمثیلی مضمون پڑھ رہا ہے، کوئی قصہ پڑھ رہا ہے یا کوئی انشائیہ۔ یوں اِس اسلوب میں لکھے گئے اس کے تبصرے روایتی تبصرہ نگاری سے ایک زینہ آگے بڑھ کر تخلیق  کے زاویے کو چھو لیتے ہیں۔ میں اسے ’تخلیقی تبصرہ نگاری‘ کہوں گا۔

                مثال کے طور پر کتاب میں شامل پہلا ہی تبصرہ دیکھ لیجیے۔ یہ ڈاکٹر شاہ محمد مری کی مشہورِ زمانہ ’عشاق کے قافلے‘ سیریز کی پہلی کتاب ’مزدک‘ پہ لکھا گیا تبصرہ ہے۔ اس کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے؛”وہ ایک عالیشان عمارت تھی جہاں میں پہنچی۔اندر داخل ہوئی۔بائیس منزلہ عمارت گو کہ اب کھنڈر لگ رہی تھی لیکن آثار بتا رہے تھے کہ کبھی یہ محل رہا ہوگا۔ میں عمارت کی ایک ایک چیز کو دیکھ کرمحظوظ ہو رہی تھی کہ پہلی منزل پر ہمارا استقبال سپارٹیکس نے کیا۔“

                بائیس منزلیں دراصل کتاب کے بائیس ابواب ہیں۔ اور یوں وہ ہرباب کا تعارف عمارت کی ایک منزل کے طور پر کرواتی ہے۔ اور اس کا اختتام کچھ یوں کرتی ہے؛

”ان بائیس عظیم شخصیات سے ملنے کے بعد میں اپنے گائیڈ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کے ساتھ اس عمارت کی چھت پر چلی گئی۔سامنے کھلا آسمان تھا، کھلی فضا تھی……پہلی بار کھلی فضا میں سانس لینے کی اہمیت کا حساس ہوا۔ آزادی کا احساس ہوا، آسمان کی وسعتوں کا احساس ہوا۔لیکن پھر پتہ چلا کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں، اور یہ سفر کا پہلا سنگِ میل ہے، جس کی ابھی تیس منزلیں پار کرنی ہیں۔ میں نے پہلی منزل کا نشان کتاب ’مزدک‘ سینے سے لگائی اور محسوس کیا کہ آسمان کی وسعتیں کس قدر بڑھ گئی ہیں، مجھے لگا کہ میرے پَر اُگ آئے ہیں، اور میں آسمان کی وسعتوں میں اُڑ سکتی ہوں ……“

                یوں ان فقروں میں رچا اس کا تخلیقی وفور، تبصرے میں کچھ یوں گھل مل جاتا ہے کہ تبصرے اور تخلیق کو جدا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ وہ وصف ہے جو معاصر تبصرہ نگاروں میں خال خال ہی دِکھتا ہے۔ بلوچستان میں تواسے بلاشبہتبصرہ نگاری کی  ایک نئی روایت کا آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔عابدہ کے ایسی تخلیقی تبصروں کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ یہی انداز اس نے ماؤزے تنگ پر شاہ محمد مری کی کتاب میں اختیار کیا ہے۔ اِس تبصرے میں اُس نے کتاب کے لیے باغ کی تمثیل استعمال کی ہے۔ جہاں وہ مصنف کی ہمراہی میں اس باغ کی سیرکرتی ہے اور ساتھ ہی اپنے قاری کو یوں ساتھ لیے چلتی ہے کہ کسی قسم کی خارجیت کا، اجنبیت کا، بیرونیت کا کوئی احساس نہیں ہوتا، قاری کشاں کشاں اس کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔ ’عشاق کے قافلے سیریز‘ کی آخری کتاب پہ بھی اس نے تمثیلی تبصرے کا ہی انداز اختیار کیا ہے۔ یہاں وہ فوٹو البم کی تمثیل کو بروئے کار لاتی ہے اور مصنف کے ساتھ ان کی یادوں کے البم میں شریک ہو کر قاری کو بھی اس محفل کا حصہ بنا لیتی ہے۔

                تخلیقی انداز میں لکھا گیا اس کا سب سے شاندار تبصرہ شاید شاہ محمد مری کی اپنی پسندیدہ کتاب ’چین آشنائی‘ پہ ہے۔ عابدہ نے کمال یہ کیا ہے کہ تبصرے میں عین وہی طرز اور اسلوب اختیار کیا ہے، جو منصف نے اپنی کتاب میں رکھا ہے۔ حتیٰ کہ جس قاری نے یہ کتاب پڑھ رکھی ہو، اس کے لیے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ کہاں تبصرہ نگار کی رائے درج ہے اور کہاں اصل متن۔ اُس نے اپنی رائے کو کتاب کے متن سے یوں ہم آہنگ کیا ہے کہ نہ صرف کتاب کے موضوع اور متن کا تعارف ہو جاتا ہے، بلکہ اس کے اسلوب اور طرز سے بھی آشنائی ہو جاتی ہے۔

                ’چین آشنائی‘ شاہ محمد مری صاحب کی اپنی تخلیقات میں سے ان کی پسندیدہ کتاب ہے، اور عابدہ کا یہ تبصرہ اس کی اب تک تبصرہ نگاری میں، میرا پسندیدہ تبصرہ۔ یہ محض تبصرہ نہیں، ایک شاندار تخلیقی مضمون بھی ہے، جو رومانوی فضا سے ایسا بھرا ہوا ہے کہ اس کی تاثیر کبھی پھیکی نہیں پڑنے والی۔

                اسی طرح تراجم کے ضمن میں وہ کارل مارکس کی زندگی پر ہنرخ والکوف کی کتاب کے ترجمے پر خود مارکس اور جینی کی زبان سے تبصرہ کرواتی ہے۔یہ تبصرے چوں کہ ماہتاک ’سنگت‘ میں شائع ہوتے رہے، سوایک کتاب (جینی کے خطوط) کا تبصرہ اس نے رسالے میں لکھے گئے خط کی طرز میں کیا ہے۔جس میں وہ بطور مبصر سنگت کے قارئین سے براہِ راست مخاطب ہو کر انھیں اپنے مطالعے میں شریک کرتی ہے۔ یہ انوکھا طرز اس کی تخلیقی صلاحیت کی عکاسی بھی کرتا ہے اور اس کے تبصروں کو قابلِ توجہ بھی بناتا ہے۔

                عابدہ نے تبصرہ نگاری کے اسلوب کے ساتھ، عنوانات میں بھی جدت اور تخلیقی پن کا ثبوت دیا ہے۔ یہ بھی شاید تبصرہ نگاری کی روایت میں ایک نیا اضافہ ہوگا۔ مثلاً چند تبصروں کے عنوانات دیکھیے؛ ’راہنما کتاب‘ (مزدک)، ’ایک مہکتے باغ سے وحشی دیار تک‘(چیئرمین ماؤ)،’عشق کا حیرت کدہ‘(مستیں توکلی)، ’قافلے کی گھنٹی‘(سائیں کمال خان شیرانی)، ’انقلابی عمل ذہنوں کو آزاد کرتا ہے‘ (فیڈل کاسٹرو)، ’سالارِ انقلاب‘(چے گویرا)،’دیوانے بھی ہم کو دیوانہ کہتے ہیں‘(بابو شورش)،’خود اپنی کائنات کا خالق‘(یوسف عزیز مگسی کے خطوط)، ’خیالِ یار کے دوش پر‘(چین آشنائی)، ’وفا کی سفارت کاری‘(وفا کا تذکرہ)۔

                عابدہ کی تبصرہ نگاری میں مگر ایک نقص بھی ہے۔  وہ اپنے تبصروں میں کتاب کے متن سے تو متعارف کرواتی ہے مگر اس پہ  بلواسطہ یا بلاواسطہ کوئی رائے قائم نہیں کرتی۔ عمومی تبصروں کی طرح کہیں کہیں آخر میں کتاب پڑھنے کا مشورہ دے کر بات لپیٹ لیتی ہے، لیکن اس کے تبصرے سے قاری کتاب کی مجموعی خوبیوں یا خامیوں سے آگاہ نہیں ہوپاتا۔ وہ کتاب کے متن کے تعارف پر اتنی محنت صرف کرتی ہے کہ اس کے فنی پہلویا تو اس کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں یا وہ اس طرف نظر ہی نہیں ڈالتی۔ ایک اچھے تبصرے نگار کو کتاب کے فنی پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ غیرمحسوس انداز میں ہی سہی، مختصراً مگر جامع انداز میں ان کا تذکرہ، تبصرے کو قاری کے لیے سودمند بناتا ہے۔

                باوجود اس کے، یہ تبصرے اپنے تخلیقی وفور کے باعث نہ صرف ہماری ادبی تاریخ کا حصہ بنیں گے بلکہ ان کا مطالعہ اس نظر سے بھی لازم ہے کہ ایک مصنف کسی طرح اپنے قاری پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ قاری کسی مصنف سے کس طرح حظ کے ساتھ ساتھ شعوری بالیدگی کشید کرسکتا ہے۔ عابدہ رحمان نے مسلسل تین چار برس ایک مصنف کو پڑھا، اس پہ غور کیا اور اس سے سیکھا۔ اس لیے ان تبصروں میں ہم تبصرہ نگار کے شعوری ارتقا کی جھلک بھی دیکھتے ہیں۔ شاہ محمد مری کامطالعہ کرنے سے پہلے وہ ایک عام لکھاری تھی، جب کہ ان پچاس کتابوں کے مطالعے نے اس کی فکر کوایک سمت دے ڈالی۔ جس کا اظہار وہ کہیں بین السطور تو کہیں واشگاف انداز میں اپنے تبصروں میں بارہاکرتی نظر آتی ہے۔

                ان کتابوں کے فاضل مصنف گو کہ عمر بھر کسی قسم کے صلے او رستائش کی تمنا کے بنا، تحریرکو اپنا فکری مورچہ جان کر اس پہ ڈٹے رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ان کی پچاس کتابوں میں سے کسی ایک کتاب پر کسی معروف ادیب کا پیش لفظ ملتا ہے، نہ دیباچہ، نہ کوئی فلیپ۔ کتاب لکھی اور قارئین کے حوالے کر دی۔ وہی اس کا اچھا برا طے کریں گے۔ اس لیے ان کی چھیاسٹھویں سالگرہ پہ پیش ہونے والی یہ کتاب، ایک طرح سے ان کی تیس، پینتیس سالہ قلمی ریاضت کا صلہ بھی ہے۔ یہ گواہی ہے اس بات کی کہ کمٹ منٹ‘صلے سے کیسی ہی بے پرواہ کیوں نہ ہو، آخر اپنا صلہ پاتی ہے۔ تحریری خلوص بالآخر اپنے حصے کا خراج پاتا ہے۔ عوام کے حق میں ہونے والا قلم کا سفر رائیگاں نہیں جاتا۔

                عابدہ نے اپنے ایک تبصرے کا عنوان باندھا تھا؛’لکھا ہوا لفظ نہیں مرتا‘۔ میں یہ عنوان اُسے اس فقرے کی صورت لوٹاتا ہوں کہ، کمٹ منٹ کے ساتھ لکھا ہوا لفظ مرنے نہیں دیتا!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے