نفرت ہے کیوں فضا میں محبت کے باوجود

کھلتی نہیں یہ بات وضاحت کے باوجود

 

دشمن بھی اور میں بھی ہلاکت کی زد پہ ہیں

ڈٹ کر کھڑا ہوں سب سے عداوت کے باوجود

 

کرنے لگا ہے چوک پہ انصاف اپنے آپ

بپھرا ہوا ہجوم عدالت کے باوجود

 

دِکھ کیوں نہیں رہے ہمیں آثار انقلاب

باغی ہوئے  نہ لوگ بغاوت کے باوجود

 

رِندی، شعور عشق، سرو ساز ِزندگی

ہرکام ناتمام ہے فرصت کے باوجود

 

جو سچ تھا جو صحیح تھا وہی سرخرو رہا

ثابت ہوا نہ جھوٹ وکالت کے باوجود

 

منکر بھی جنتوں میں تو مشرک بھی جنتی؟

دوزخ میں جل گیا میں عبادت کے باوجود

 

ہوتی نہیں ہے کوئی کبھی ان کے بھی خلاف

تادیبی کاروائی شکایت کے باوجود

 

جس کو امیر درد سمجھتے تھے ہم وحیدؔ

وہ بھی فقیر نکلا سخاوت کے باوجود

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے