شام کی سیڑھیوں پہ

رک رک کر

وہ ہمیں دیکھتی ہیں صدیوں سے

 

ایک آنچل میں کچھ ستاروں کی

کہکشاں ساتھ ساتھ رکھے ہوئے

 

آئینے پار ایک حیرت کے

حسن کی آنچ دے رہی ہیں وہ

 

ایک تجرید میں سراپے کو

کینوس پر اتار کر خود ہی

دیکھتی جائیں ایک وحشت سے

 

کچھ کہی، ان سنی سی باتیں کچھ

اَن کہے یا سنے سنے سے دکھ

جھیلتی، بانٹتی، پگھلتی ہوئیں

 

حبس کی کھڑکیوں کے اک جانب

رخ کیے سوچتی ہیں تازہ ہوا

 

اک ازل کے بجھے ہوئے پل میں

اک ابد کے الاؤ کے نزدیک

استعارے میں ہاتھ تاپتی ہیں

 

زندگی کی کتاب میں اپنی

معنویت کے ان گنت ٹکڑے

کرچیوں میں کہیں سنبھالے ہوئے!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے