آخر کس دن تم میری آواز سنو گے؟

کس دن مجھ کو پہچانوگے؟

 

میری آنکھیں

اپنی مٹی میں اشکوں کی فصلیں بو کر

ہیرے موتی چُن سکتی ہیں

میری سانسیں

رنج و الم کے تار سے آگاہی کا ریشم بُن سکتی ہیں

 

میرا کاجل

درد کی گہری تاریکی کو

اپنی بانہوں کے گھیرے میں لے سکتا ہے

میرا آنچل

آرزوؤں کی انگلی تھامے

شوق کی لَے پر ہو کر رقصاں

 

تازہ موسم کا سندیسہ دے سکتا ہے

 

میں سیفو اور میرا بائی کے پیکر میں

پیار کی بزم سجا سکتی ہوں

اور جھانسی کی رانی بن کر

رزم کے گیت سنا سکتی ہوں

 

تم میرے خوابوں کو کانچ کے ٹکڑوں میں تبدیل کروگے

لیکن میں کولاژکی صورت

ان سے اک روشن تصویر بنا ڈالوں گی

تم میرے لفظوں کو جب بھی استہزا کے شور میں یوں تبدیل کروگے

میں اپنی آواز کے شعلوں سے زنجیر بنا ڈالوں گی

میں تخلیق کا سر چشمہ ہوں

یہ سچائی آخر تم کس دن مانو گے؟

کس دن مجھ کو پہچانوگے؟

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے