کروپسکایا اور لینن اور سیاست کے گڑھ میں

          اِس وقت تک کروپسکایا اور لینن پختہ کارمارکسسٹ بن چکے تھے۔ مارکسزم پر ان کا اعتماد مکمل اور بھرپور تھا۔وہ بہت وضاحت کے ساتھ بیان کرنے لگے کہ مارکسزم ایک ساکت وجامد عقیدہ نہیں ہے۔ اورنہ ہی مارکس پوجاجانے والا کوئی پیشوا ہے۔ لینن کا ایک مقبول و مشہور فقرہ ہے:”ہم مارکس کے نظریے کو مکمل،اور ناقابلِ تنسیخ نہیں سمجھتے۔۔۔ہم اس بات کے قائل ہیں کہ اُس نے سائنس کی صرف بنیاد ڈال دی“۔۔۔۔سچی بات ہے کہ یہ فقرہ مارکس دشمنوں کے لیے ہی نہیں یہ مارکس دوستوں کے لیے بھی ہے۔

           اُن کے نزدیک مارکسزم بلا شبہ ایک ”مستقل“ اور ایک ”منضبط“ عالمی نکتہ نگاہ ہے۔ (ورلڈ آؤٹ لک!!)۔انہوں نے اُسے کبھی بھی آخری اور حتمی نہیں سمجھا۔اس لیے حتمی اور آخری چیز کچھ بھی ہو سکتی ہے مگر سائنس نہیں۔سائنس میں کوئی فل سٹاپ نہیں۔ سائنس صرف ”کاما“ کا نام ہے۔  وہ دونوں آخر تک مارکس کے ”تخلیقی شاگرد“رہے۔(میرا بس چلے تو میں مارکسزم سے وابستہ سارے لوگوں کے لیے لفظ”تخلیقی“ بطور سابقہ ولاحقہ لگائے رکھوں!)۔

          کروپسکایا اور لینن ہر جگہ آنکھیں بند کرکے مارکس کے فقروں کو دھرا کر اُن کے من وعن اطلاق کی بات نہیں کرتے تھے وہ تو اس کا بے انتہا مطالعہ کرتے تھے، اور اس کی روشنی میں اپنی صورتحال کا تجزیہ کرتے۔ اور اسی صورتحال اور اس کے تجزیے کے مطابق سیاست کا داؤ پیچ وضع کرتے۔ان کے نزدیک مارکسز م ایک ایسا فریم ورک تھا جس میں سے گزرکر”اپنے اپنے ماحول اور صورتحال کا اپنا ٹھوس تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔

          اسی لیے دنیا کے فلاسفر اُسے Russifier of Markism(مارکسزم کو روسی بنانے والا) کہتے ہیں۔ اُن لوگوں نے واقعتا مارکسزم کو روسی لباس پہنادیا۔

          اُن لوگوں کی محنت کے سبب پیٹرسبرگ میں ایک ڈیڑھ سال کے اندر اندر ورکنگ کلاس تنظیموں کو شعور وڈسپلن کا بڑا میدان میسر ہوا۔ بہت جلد لینن پاپو لسٹوں کے بڑے لیڈر میخائلو فسکی کے ساتھ مباحثوں کے ذریعے ادبی اکھاڑے میں موجود تھا۔

          سینٹ پیٹرسبرگ میں لینن وکالت کرتا تو تھا مگرنیم دلی کے ساتھ۔ اُسے تو سیاسی کام کرنا تھا۔ اس لیے اس کی مالی حالت اچھی نہ تھی اور وہ بہت تنگدست زندگی گزارتا رہا۔مالی مدد کے لئے وہ ماں کی طرف ہی رجوع کرسکتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی والدہ ۔کو لکھا:”میرے لئے کچھ پیسے بھیج دیں۔ میں اپنے پہلے والے پیسے خرچ کرچکا ہوں ……“(1)۔

            اسی زمانے (1895)میں لینن نے ایک پمفلٹ لکھا جس کا عنوان تھا: ”جُرمانوں کے قانون پہ“۔ اس (ظاہر ہے کہ خفیہ اور غیر قانونی)پمفلٹ میں اُس نے یہ شاندار تصور پیش کیاکہ کس طرح مزدوروں تک پہنچاجائے اور اُن کی ضروریات کے مطابق قدم بہ قدم سیاسی جدوجہد کی ضرورت کے معاملے پرکس طرح اُن کی راہنمائی کی جائے(2)۔اس پمفلٹ  میں مارکسزم کو مقبول بنانے کی زبردست تدابیر موجود ہیں۔

          یہاں ایک بات کا تذکرہ ہوجائے کہ روس کا اولین مارکسسٹ گروپ 1883میں سوئٹزر لینڈ میں قائم ہواتھا۔ اس کانام ”لبریشن آف لیبر“ تھا۔ اس میں 4 زبردست آدمی شامل تھے جو سب کے سب سابقہ پاپولسٹ تھے: پلیخانوف، ایکسلراڈ، دوئچ،اور،ویرا زاسولچ۔یہ سب باہر ملک جلاوطن تھے۔ چنانچہ اب پیٹرسبرگ میں موجود گروپ نے لینن کو پلیخانوف سے مذاکرات کے لیے سوئٹزرلینڈ جانے کے لیے نامزد کردیا۔ اسی زمانے میں اُسے نمونیا ہوگیا تھا۔اس کے باعث اس کا دورہ تو ملتوی ہوا۔ مگر، اِس بیماری کابہانہ بناکر وہ پاسپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، اور باہر چلا گیا۔

          یوں،لینن مغربی یورپ چلا گیا اور اس نے 1895کی گرمیاں وہیں گزاریں۔ اُس نے سوئٹزر لینڈ میں پلیخانوف، ایکسیلراڈ اور زاسولچ سے طویل نشستیں کیں۔ اور اہم موضوعات پر مفصل ترین بحثیں کیں۔

           پلیخانوف اُس سے مل کر بہت متاثر ہوا۔ وہ ہر جگہ اس کی تعریفیں کرنے لگا۔ اس نے لینن کے بارے میں لکھا: ”ایک نوجوان کامریڈ یہاں آیا، جو کہ بہت عقلمند، بہت تعلیم یافتہ اور زبردست مقرر ہے۔ ہماری انقلابی تحریک میں ایسے نوجوان لوگوں کی موجودگی بہت خوش قسمتی ہے“۔

          وہ تین ہفتے سوئٹزر لینڈ میں رہا۔ پھروہ پیرس چلا گیا۔ وہاں بین الاقوامی مزدور تحریک کا ایک اور بڑا لیڈر اور نظر یہ دان پال لافارگ رہتا تھا جو کہ کارل مارکس کا داماد بھی تھا(لارا کا خاوند)۔یہ شخص ایک مشہور جرنلسٹ، سیاسی مصنف اور بہت سرگرم سیاسی ورکر تھا۔ اس کی مشہور کتاب کا نام ”سست رہنے کا حق“ ہے۔ دونوں نے خوب تبادلہ خیالات کیے اور چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔لینن چھ ہفتے تک پیرس میں رہا۔ اس کے بعد وہ سوئٹزرلینڈ لوٹا۔ وہاں سے وہ جرمنی گیا۔ جہاں برلن میں وہ مزدوروں کی میٹنگوں میں جاتا رہا۔اور وہاں کی مزدور تحریک کا جائزہ لیتا رہا۔ اس نے اُن کے لیڈروں کے خیالات سے واقفیت حاصل کی۔

۔1895کے ستمبر کے اوائل میں وہ  روس واپس لوٹا۔ اُب اس کے پاس مغربی یورپ میں ورکنگ کلاس تحریک کے بارے میں مکمل معلومات تھیں، اور وہاں عالمی کمیونسٹ تحریک کے لیڈروں سے ملاقاتیں کر کے وہ تاثرات سے بھرالوٹا۔ واضح رہے کہ وہ عمدہ جرمن بولتا تھا، اور فرانسیسی اور انگلش کا عمدہ عملی علم رکھتا تھا۔(3)۔ایک او رکمال اُس نے یہ کیا کہ وہ وہاں سے سوٹ کیسوں میں ڈبل لائننگ، کے بیچ خالی جگہوں میں ایک ٹرنک جتنا غیر قانونی لٹریچر ساتھ لایا۔

          سینٹ پیٹر سبرگ میں پہنچ کر اس نے سرکلز میں اپنے مشاہدات بتائے۔ اور اپنے ساتھیوں کو مغربی یورپ میں مزدور تحریک کے بارے میں آگاہی دی۔ اُس نے سیاست و فلسفہ کے باب میں وہاں کے لیڈر وں کے خیالات بتائے۔ نیز، اس نے بہت عقلمندی کے ساتھ باہر سے لائے لٹریچر کو ملک کے دور نزدیک بھیجنے کے انتظام کیے۔

          گوکہ پولیس پاگلوں کی طرح اس کی جاسوسی کر رہی تھی۔ مگر اس نے بہر حال اپنی سیاسی سرگرمیاں کم نہ کیں۔وہ ایک ماہر انقلابی کی طرح اپنی رہائش اور ایڈریس تبدیل کرتا جاتا تھا۔

۔1895کے اواخر میں کروپسکایا،لینن اور ان کے ساتھیوں نے سینٹ پیٹرسبرگ کی بکھری ہوئی مارکسسٹ ٹولیوں کو اکٹھا کرکے ایک تنظیم کھڑی کردی:”ورکنگ کلاس کی جدوجہدِ نجات لیگ“۔ باہم انضمام کرنے والے یہ تقریباً 20گروہ تھے۔یہ لیگ مزدوروں کی سیاسی پارٹی یعنی ایک مارکسی انقلابی پارٹی کے قیام کی طرف پہلا قد م تھی۔لیگ نے مزدور تحریک سے زیادہ گہرے تعلقات قائم کرنے اور اُن کی سیاسی رہنمائی کرنے کو اپنا فریضہ قرار دیا۔ یہ چونکہ مارکسزم پہ مبنی سیاسی تحریک اور سیاسی پارٹی تھی۔ اس لیے اُس نے وہاں کی ہڑتالوں میں مزدور تحریک کو سوشلزم کے ساتھ جوڑا۔وہ لوگ ہڑتالی مزدوروں کے اجتماع میں جاتے، ور وہاں پمفلٹ تقسیم کرتے تاکہ ہڑتالی مزدور طبقاتی شعور سے لیس ہوں۔

          بلاشبہ روسی دارالحکومت میں یہ ایک انقلابی پارٹی کی اولین کونپل تھی جس کی پشت پر مزدور طبقے کی تحریک تھی۔لیگ کی پیروی میں دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اس طرح کے لیگ بننے لگے۔۔۔۔ سچی بات یہ ہے کہ اسی نازک وابتدائی تنظیم نے مستقبل میں دنیا بھر میں بننے والی کمیونسٹ پارٹیوں کی ”گرینڈ مدر“بننا تھا۔

 

ریفرنسز

۔لینن۔ و۔ Letters to relatives۔ 1930۔ صفحہ11۔ ماسکو

۔ کروپسکایا۔ memoirs۔ صفحہ 8

۔ٹیٹوف۔ اے Lenin through the eyes of Lunacharsky۔ نووستی پریس 1980 صفحہ98

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے