بلوچستان کے نہری زرعی علاقے نصیر آباد میں کھیت مزدور یعنی کسان کی حالت انتہائی خراب ہے۔ وہ ہر لحاظ سے پسماندہ ہے۔ قرض اور مرض دونوں کسان کے پکے اور گہرے دوست ہیں۔ یہاں ہر چیز موروثی ہے۔ جاگیر دار بھی موروثی، کسان بھی موروثی، قرض بھی موروثی مرض بھی موروثی، یہ دونوں بھی خود بخود اگلی نسلوں کو منتقل ہوجاتی ہیں۔اُنڑ، ٹانوری، بمبل، پیچو ہو، و دیگر لوگ چار نسلوں سے کھیت مزدور کے طور پر کام کرتے آرہے ہیں

          زمیندار ایک مخصوص رقم بطورِ تقاوی ضرور تمند کسان کو دیکر نصف پیداوار کی شرط پر زمین آباد کرنے کا معاہدہ کرتا ہے۔ یہ رقم کسان کو خاندان سمیت گروی رکھنے کا گویا زرِّ ضمانت ہوتا ہے۔ اِس رقم میں ہر سال مزید قرضہ کی صورت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس زمیندار سے جان چُھڑانے کا فی الحال ایک ہی طریقہ رائج الوقت ہے۔ کہ کسی دوسرے زمیندار سے مطلوبہ رقم بطور قرض لے کر پہلے والے زمیندار کو ادا کرے اور خود دوسری جگہ گروی ہوجائے۔ اس طرح ”آسمان سے گرنے اور کھجور پہ اٹکنے“ کا یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ایسے کسان کو انگریزی میں ”سرف“ کہتے ہیں۔

           زمین زمیندار کا،بیج کسان کا ہل، کھاد، اِسپرے و دیگر اخراجات نصف نصف، تھریشر کسان کے ذمے اور کسان کے محنت کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی یلغار سے پہلے کسان اپنے حصے کی اناج سے بیج کی مطلوبہ مقدار الگ کر کے رکھ دیتا تھا اب بیج کا اختیار کسان کے ہاتھوں سے نکل کر زمیندار کی سہولت کاری میں دلالوں کے معرفت ملٹی نیشنل ہائبرڈ کمپنیوں کے قبضے میں چلا گیا ہے۔ اجارہ دار کمپنیاں ایک ہی قسم کی بیج کو مختلف ناموں اور مختلف قیمتوں سے مارکیٹ میں لاتے ہیں۔ زمیندار بہتر پیداوار کی لالچ میں دلالوں کے ہتھے چڑھ کر اُدھار پر مہنگے داموں خرید کر بیج کسان کے سر تھوپتا ہے۔ یہی حال کھاد اور زرعی ادویات کی ہے۔ مقابلے کی اس دوڑ میں دو نمبر چیز بھی چل جاتی ہے۔ اور اس کا نتیجہ فصل اور کسان کی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہل میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے۔ زمیندار کے کارندے اپنے مرضی سے کسان پہ مشین (ٹریکٹر وغیرہ) کے گھنٹے لکھتے ہیں۔ ہل، بیج اور کھاد کے سلسلے میں کسان کو مشورے سے باہر رکھا جاتا ہے۔ اُسے خاموشی سے حکم پہ عمل کرنا ہوتا ہے۔

           سائنس کی کرشمائی مہربانیوں سے ہر چیز مشینری کا محتاج ہوگیا ہے۔ اور مشینری زمیندار کی مہربانیوں سے کسان کو مزید مقروض کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ فصل کٹائی کے اپنے ریٹ، تھریشرکے اپنے ریٹ۔ پہلے کٹائی ہاتھ سے کی جاتی تھی۔ مزدوری کے مواقع پیدا ہوتے تھے۔ اب وہیپر،ہارویسٹر (علاقائی نام چوٹی پٹ) سب کام کررہے ہیں۔ تھریشر نے زراعت میں بیل کا کردار بالکل ختم کردیا ہے۔ ماضی قریب میں کسان کے پاس بیلوں کا جوڑ الازمی تھا۔ بیلوں کے بغیر اُسے کاشتکاری کے لیے زمین ملنا مشکل ہوتا تھا۔ بیل گاڑی کا سفر گدھا گاڑی سے ہوتے ہوئے چنگچی رکشہ تک پہنچا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ زمیندار کی خواہش ہوتی ہے کہ کسان کے پاس مال مویشی نہ ہوں تاکہ گھاس چارے وغیرہ کی صورت میں فصل کا نقصان نہ ہو۔ اس لحاظ سے کسان کی اضافی آمدنی جو مال مویشی کی صورت میں ہوتی تھی وہ بند ہوگئی۔

          نہری ریجن میں صنعتیں ناپید ہیں۔ روزگار کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں۔سرکاری ملازمتیں بھی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ مکمل انحصار زراعت پر ہے۔ زرعی پیداوار کا زیادہ تر حصہ زمیندار کی مہربانیوں سے دلال کے معرفت سرمایہ داروں کے پاس چلا جاتا ہے۔ کسان کو کھانے کے لیے بھی مشکل سے اناج میسر آتا ہے۔ خوشی غمی اور دیگر ضروریات زندگی کے لیے کسان کو مارکیٹ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اور مارکیٹ تو بے رحم ہے اسے منافع سے غرض ہے۔ منافع کی نظر انسان کے جیب  پہ ہوتی ہے۔ انسان جب کسان ہو تو اس کا جیب ہمیشہ خالی ہوتا ہے۔ خالی جیب والا مارکیٹ اور منافع خوروں کا آسان شکار ہوتا ہے۔ مارکیٹ اپنا مال اور رقم سود کی صورت میں نکال لیتا ہے۔ پورے سال کی مارا ماری کی پورائی شش ماہی دو فصلوں سے ہونا ناممکن ہے۔ اس لیے کسان ہمیشہ قرضوں تلے دبا رہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر زمینداروں نے اپنی دکانیں اور مارکیٹ بنا رکھے ہیں۔ وہ ضرورت کی ہر چیز موٹر سائیکل تک کسانوں کو مہنگے داموں اُدھار پر دیتے ہیں۔

           آئیے کچھ کسان کی ذاتی زندگی اور حالت پر نظر ڈالیں۔ کسان گھرانے کے تمام افراد بشمول پیر وجوان، خواتین اور بچے سب ہی کھیت مزدور ہوتے ہیں۔ سبھی صبح سویرے سے رات گئے تک کھیتوں میں کام کرتے رہتے ہیں۔ جاگیر داروں کے کارندے منشی جمعدار و کمدار کی صورت میں ہمیشہ کسان کے سر پر سوار رہتے ہیں۔ کسان کا عزتِ نفس پل پل مجروح ہوتا رہتا ہے۔ ان تھک محنت کے بعد گھرانے کے افراد کو جو چیز نصیب ہوتی ہے وہ ایک جوڑ ا کپڑا اور ایک جوڑا چپل ہی ہوتے ہیں باقی کُل خیر۔ سردی گرمی اور موسمی سختیوں سے بے نیاز کسان مرد، عورتیں،  بچے ننگے پاؤں کام میں جُتے رہتے ہیں۔ اور کمائی زمیندار و ساہو کار کے جیب میں چلا جاتا ہے۔صحبت پور اوستہ محمد، جھٹ پٹ، ٹیبل، چھتہ، گنداخہ وجھل مگسی اور فیوڈل علاقوں میں کسان کی حصے کا اناج بھی زمیندار اپنے گوداموں میں رکھتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر کسان بوری لے کر زمیندار اور کمدار کی منتیں کرتا رہتا ہے۔ یعنی اپنی کمائی تک بھی کسان کی رسائی نہیں۔

           کسان کو بیماری میں دوا میسر نہیں۔ بچوں کو تعلیم دلانا تو ایک خواب ہے اسے تو دو وقت روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ پورے زرعی بیلٹ کے دیہی علاقوں میں کوئی ڈھنگ کاہسپتال نہیں کوئی سکول ایسا نہیں جو مکمل نظر آئے۔ کہیں عمارت نہیں کہیں اُستاد نہیں۔ زمیندار بھوتا ربھی ہے۔ وزیر بھی ہے مشیر بھی ہے، آفیسر ہے سب کچھ ہے اور کسان محض کسان ہی ہے نسل در نسل کسان۔ بلوچستان، خصوصاً نصیر آباد ریجن میں کسان کو آگے بڑھنے کا موقع ہی نہیں دیاجاتا ہے۔ عورت کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے۔ گھر کے اضافی کام اُسی کے ذمے ہیں۔ جب مردوں کو کچھ پلے نہیں پڑتا ہے تو عورتوں کو کیا ملے گا؟

          کسان صرف زمین آباد نہیں کرتا ہے اُسے زمیندار کے لیے کچھ اضافی کام بھی مفت میں کرنے پڑتے ہیں جو زمیندار کا بیگار ہوتا ہے۔ اس کے گھر اور بیٹھک کے کام، جانوروں کے لیے چارہ وغیرہ، گھرو بیٹھک کے لیے لکڑیاں وغیرہ۔

          کسان خاندان کے ساتھ زندگی گزار نہیں رہا ہے۔ بس دِن کاٹ رہا ہے۔طبقاتی نظام میں یہی کچھ ہوتا رہے گا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے