راہ چلتے ہوئے اچانک بس ٹرمینل کے سامنے کھڑی ریڑھی میں لدی ہوئی کتابوں پر نگاہ پڑی۔ کتاب دوستی نے ہمیں مجبور کیا کہ ان بے بس لاچار،موسم کی بے رحمی اور انسانوں کے بے حس رویوں سے ستائی ہوئی ان کتابوں سے کچھ دیر کے لیے سلام دعا کرنی چاہیے۔ریڑھی میں رکھی ہوئی کتابوں کی حالت بہت بری تھی۔ تمام کتابوں کی صفحوں پر لوگوں کی بے رحمی کے نشانات موجود تھے۔ کتابوں سے تعارف ہوا۔وہاں پڑی کتابوں نے اپنا تعارف بہت تکلیف کے ساتھ کیا۔ زیادہ تر کتابوں کے جلدوں پر موسم اور انسانوں نے بے تحا شا ظلم ڈھایا تھا۔ جس سے ان کے جسم نڈھال ہوچکے تھے۔ اگرکچھ کتابوں کی شکل اچھی تھی تو ان کو بھی اپنا مستقبل بربادی میں نظر آرہا تھا۔ ریڑھی میں مختلف مضامین کی کتابوں سے گفتگو جاری تھی کہ ایک موٹی کتاب کے نیچے ایک بہت کمزور سی کتاب پر نظر پڑی جو بہت بری حالت میں تھی۔ اس کتاب کی آنکھوں میں بے بسی، لاچاری تھی۔ کتاب دوست لوگوں کی بے حسی اور بے رحم رویوں سے بہت شکوے تھے۔ جب ہاتھ اس کتاب کی طرف بڑھنے لگا تو اس کتاب کے کچھ اور بھی دوست موجود تھے۔ جو اسی کے خاندان سے تھے۔ وہ بھی اُسی حالت میں تھے۔ ان سب کی مردہ زندگی میں ایک امید سی پیدا ہوگئی یوں میرا ہاتھ کتابوں سے قریب ہوتا جارہا تھا۔

اس گلدستے کے پھول کے زندہ رہنے کی امید تیز ہوتی جارہی تھی۔پھر پھول کا شوق تھا کہ اس کی زندگی کو بقامل جائے۔یوں تھے تو سب ایک گل دستے کے پھول پر مرتاکیا نہ کرتا، زندہ رہنے کی مجبوری نے ان میں بھی مقابلہ پیدا کیا۔ جو ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ جب یہ مقابلہ بابو نے جیت لیا تو باقی گُلوں میں مایوسی سی پیدا ہوگئی۔ ان کے زندہ ہونے کی تمنا کی ڈور ٹوٹنے لگی۔ جب بابو سے ہاتھ ملایا۔ ان سے گفتگو شروع ہوئی۔ بابو نے جس انداز سے اپنی گفتگو جاری رکھی تھی۔ دل نہیں چاہ رہا تھا کہ اس کی گفتگو میں مداخلت کروں۔ بابو شیریں زبانی سے اپنے علاقائی الفاظ کا جس خوبصورتی کے ساتھ بیان کر رہا تھا۔ ان علاقائی الفاظ سے اُس کی گفتگو کو مزید نکھار دیا تھا۔ شاید یہاں کوئی اور ایسی کتاب نہ ہو جو اتنے خوبصورت انداز میں علاقائی الفاظ اور لب و لہجے کی وضاحت کرتی ہو۔ جب بابو نے انہی علاقائی زبانی  نعروں سے اپنے گھر کا تعارف کیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو اسی شہر کا باشندہ ہے۔ جو اپنے ہی شہر میں اجنبی بن گئی ہے۔ اپنے شہرمیں ہی اتنا پرایا ہوگیا ہے کہ اپنے لوگوں کے گھروں میں اس کے لیے جگہ کم پڑگئی اور وہاں سے کتابوں کے ڈھیر پہ آگیا۔ بابو نے بڑے دکھ کے ساتھ بتایا کہ وہ کوئٹہ کے  ایک مشہور لکھاری آغا گل کا پھول ہے جس کے کچھ اور پھول بھی آس پاس لا علاج مریض کی طرح ہیں جو موت کے انتظار میں ہسپتال کے بستر پر پڑے ہوئے ہیں۔ بابو بتا رہا تھا کہ آغا گل انہی لوگوں کے درمیان اتنا بیگانہ ہوگیا ہے کہ اس کا گلدستہ خوبصورت الماریوں کے بجائے سڑکوں کے کناروں پر کھڑی ریڑھی میں کتابوں کے ڈھیر پر آگیا یا کسی کباڑی کے دکان کا سرمایہ بن گیا جو اُس کوکسی پکوڑے والے یا کسی پنسار کو بیچ ڈالے گا۔  نہ جانے ہمیں کب احساس ہوگا۔ جب ہمارا لکھاری ہمارے درمیان بیگانہ ہوتو دنیا اُسے کیسے پہچانے گی۔ بابو نے اسی گفتگو میں اپنے باقی ساتھیوں سے بھی ملوایا جس میں بیلہ،راسکوہ، مشین گردی، اور دشتِ وفا شامل تھے۔ آغا گل کا گلدستہ واقعی اتنا اچھاتھا کہ اس گلدستہ کو اٹھا کر گھر لانا پڑا اوراپنی، کتابوں سے ان کا تعارف کرنا پڑا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے