یہ میرے بچپن کا ماجرا نہیں،سبھی انسانوں کے بچپن میں ہوا کہ کوئی زلزلہ آیا،سیلاب آیا،قحط پھیلا،وبا آئی یا کسی ملا کے خط پر کوئی بیرونی حملہ آو رآیا تو ہم نے فزکس،معاشیات،تاریخ یا سیاسیات کے عالم کی بجائے اپنے امام مسجد سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا،کیوں ہوا اور کب تک رہے گا؟ اس نے ایک ہی جواب دیا کہ یہ سب شامت اعمال ہے]شامتِ اعمال ما صورتِ نادر گرفت[،یہ ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہے، وغیرہ۔ ایسا کہنے والے کے معدے میں کئی بکرے،کئی بوریاں آٹا اور کانوں میں معصوم لوگوں کا گریہ و زاری پہنچتا رہا،تا آنکہ کچھ گستاخ سوال ان مقدس کانوں تک پہنچنا  شروع ہوئے۔’ہم سے کہیں زیادہ گناہگار لوگ مشکل وقت میں جہاز پر بیٹھتے ہیں،پجیرو نکالتے ہیں،ملک الموت سے زیادہ ڈراؤنے اپنے محافظ لیتے ہیں اور کسی عافیت کے جزیرے پر بھاگ جاتے ہیں،ہمارے پاس تب آتے ہیں جب غیر ملکی امداد بانٹنے اور کھانے کے دن آتے ہیں یا ہمارے دکھوں کو بیچ کے انہوں نے ووٹ لینے ہوں اور گیسٹ ہاوسوں میں بیٹھے عقل والوں نے حکومتیں بنانی ہوں۔

            اب کرونا  وائرس کے ساتھ ہی ایران بارڈر تفتان اور چمن کی باتیں شروع ہوئیں،ہم سب ایک عرصے سے جانتے ہیں کہ ایران جانے والے سبھی زائر نہیں ہوتے انہیں پاکستان کے وسطی پنجاب کے حکمرانوں نے ان کی ماؤں بہنوں کے زیور کے عوض ایران کے راستے ترکی اور پھر جرمنی پہنچانے کا وعدہ کر رکھا ہوتا ہے،ہمیں سب پتا ہوتا ہے کہ سرحد کے محافظوں کے لئے یہاں پوسٹنگ کیوں منفعت بخش ہوتی ہے؟پھر جب سے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی نے بلوچستان کے بظاہر بے زبان پہاڑوں کے دامن میں تیل،گیس،تانبا اور سونا دریافت کیا ہے،اس علاقے کے وسائل پر قبضے کی جو جنگ چھڑی ہے،اس کے نتیجے میں ہونے والے کشت و خون کو بھلا کس کے گناہوں کا نتیجہ کہا جائے گا؟

            ان دنوں پاکستان کی تمام زبانوں میں ناول لکھنے کی امنگ پیدا ہو چکی ہے،بڑا ناول جرات اظہار بھی مانگتا ہے اور ساتھ ہی وہ جس علاقے کے بارے میں لکھتا ہے اس کا جغرافیہ اس کے دل پر نقش ہوتا ہے،اس کی تاریخ،لوک روایت اور لوگ اپنی معصومیت اور چالاکی کے ساتھ اس کے تخیل میں رنگ بھرتے ہیں اور زندگی کی بے ساختگی اور وفور کا نقش گہرا کرتے ہیں۔سرائیکی زبان کی خوش نصیبی ہے کہ اس کے پاس کلاسیکی شاعری اور لوک گیتوں کے سرمائے کے ساتھ آج اعلیٰ درجے کے شاعر موجود ہیں جو اس زبان کا وقار بڑھا رہے ہیں،اس خطے کے محسوسات،تخیل اور یاد داشت کو کئی صدیوں اور آنے والے زمانے کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔مگر اس خوش نصیبی کو ابھی ناول افسانے کی دنیا میں طلوع ہونا ہے۔ایسا نہیں کہ ہمارے پاس گہرا ثقافتی،سماجی اور تاریخی شعور رکھنے والے مصلحت سوز فکشن نگار نہیں،تاہم ہمارے پیش نظر کسی ایوارڈ کا حصول،عقیدت مندوں کی پذیرائی یا اپنے عجز بیان یا فطری خوف]قید و بند،بے روزگاری،بچوں کے لئے مشکلات[پر پردہ ڈالنے والے ابہام کا حیلہ ہوتا ہے۔ اس لئے فی الحال ہیوگو،ٹالسٹائی،بالزاک یا مارکیز یا مرزا رسوا، پریم چند،شوکت صدیقی، حسن منظرکی ہمارے ہاں آمد نہیں ہو رہی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے پاس تخلیقی نثر لکھنے والے نہیں،یا وہ ’ڈرپوک‘ ہیں یا ان کے پاس بڑے تجربات نہیں۔اس تناظر میں ایک دو مرتبہ میں نے پیلھوں میں سرائیکی کے ایک سے زیادہ ناول نگاروں کا خصوصی مطالعہ شامل کیا۔

            بعض لوگ مجھ سے شاکی رہتے ہیں کہ میں بہت سی چیزوں کا کریڈٹ لیتا رہتا ہوں مگر ایک تاریخی سیاق کی خاطر کچھ باتیں زندہ لوگوں کی موجودگی میں کرنی بہت ضروری ہیں۔ اسلم انصاری  ملتان کی تاریخ، تہذیب اور جمالیات کی روایت کے نبض شناس ہیں،میری دلی خواہش تھی کہ وہ سرائیکی زبان کو ایک بڑا ناول عطا کریں۔چنانچہ شاید ۱۰۰۲ء میں سرائیکی بورڈ آف سٹڈیز سے ہم نے منظور کرایا کہ بی اے،سرائیکی آپشنل کے پرچے میں ان کا وہ ناول شامل کیا  جائے جس کا بیشتر حصہ ابھی لکھا جانا تھا،میرا کام یہ رہا کہ ہر چار ہفتے کے بعد انصاری صاحب کو یاد دلا دیا کرتا کہ حاسدین کے ساتھ ساتھ طالب علموں کے والدین کی طرف سے ہمیں ’کوسنے‘ مل رہے ہیں کہ ناول ابھی شائع نہیں ہوا اور ہم نے اسے نصاب میں شامل کر لیا۔۲۰۰۲ میں یہ شائع ہوا تو غیر سرائیکی دنیا نے بھی اس کی بہت پذیرائی کی کہ یہ ملتان کے ایک دور کے بارے میں غیر معمولی بصیرت لئے ہوئے تھا،اس کا اردو ترجمہ ہوا اور اب اسے انصاری صاحب انگریزی میں ترجمہ کر رہے ہیں۔ یہ ناول نہ صرف ملتان کے ایک تاریخی دور کا احاطہ حاکموں کی کچہری  یا نظام عدل کے مرکز میں ایک حساس ناظر کو بٹھاکر کرتا ہے بلکہ اس خطے کی کئی روایتوں کے امین بالا خانے کی جیتی جاگتی روحوں کا مضطرب مکالمہ بھی پیش کرتا ہے۔ ہمارے سرائیکی خطے میں جیسے ملتان ایک تہذیب کا نام ہے ویسے بہاولپور بھی نسبتاً جدید تناظر میں ایک حسن انتظام اور حسن سلوک کا نام ہے،جس کے حوالے سے تین نقطہ نظر ہیں،ایک یہ کہ عباسی حکمرانوں نے اسے ایک خوش حال مسلم ریاست کی مثال بنایا،وقفے وقفے سے ہندوستان کے مختلف خطوں سے تعلیم یافتہ اور ہنرمند گھرانوں کے افراد کو لا کر یہاں آباد کیا اور پھر ریاستیوں کو ایک شناخت اور احساس فخر دیا،جسے ون یونٹ نے ختم کردیا پھر یحییٰ ٰ خان کے زمانے میں ون یونٹ کی تنسیخ کے بعد ریاست کی بحالی کی بجائے اسے پنجاب کا ایک ڈویژن بنا دیا گیا،جس کے رد عمل میں ایک خونین تحریک چلی۔ یوں قیام پاکستان سے ذرا پہلے جواہر لال نہرو کی بہت خوبصورت اور دانشمند بہن وجے لکشمی پنڈٹ کا نواب صاحب کو رجھا کر پاکستان کی بجائے بھارت سے الحاق کی کوشش کرنے سے لے کر خون آشام تحریک تک کے واقعات کو بڑی مہارت سے حفیظ خان نے ’ادھ ادھورے لوگ‘ لکھا ہے جبکہ ہمارے سلیم شہزاد نے پانچ ہزار سال سے اس خطے کی تہذیب،معاشرت اور معیشت پر حملہ آور قوتوں کی حکمت عملی اور اپنی اجتماعی شناخت کو بچانے کے لئے مزاحمت کے تہہ دار منظر نامے کو مہارت سے پیش کیا ہے،مگر وہ زیادہ بڑے کینوس پر پینٹ کرنے سے ڈرتے ہیں اور شاید سرکاری منکر نکیروں کی باز پرس سے بھی۔ابھی ہم سرائیکی کے پہلے ناول نگار ظفر لشاری کی موت کا پرسہ ایک دوسرے کو دے رہے ہیں،میں خدیجہ مستور پر تحقیق کر کے ڈاکٹریٹ کرنے والی راشدہ قاضی کو اکساتا رہتا ہوں کہ وہ داجل کی کیسی بیٹی ہے اگر اس خطے کی تخلیقی گواہی نہیں دیتیں۔پھر یہ سرائیکی،پنجابی اور اردو کا ماجرا نہیں،ہماری چار سے زیادہ شاگردوں کے مضطرب قلم کو  ڈاکٹر شاہ محمد مری کا ’سنگت‘ دیتا ہے]ثمینہ اشرف،شائستہ جمال،مصباح نوید اور زرغونہ مجھے امید ہے کہ ان میں سے ہر ایک اردو یا پنجابی میں بڑا ناول لکھ سکتی ہے،البتہ یہ خوش آئند ہے کہ ”حماقتیں میرے مقدر کی“ کے خالق،فیض پر ڈاکٹریٹ کرنے والے صلاح الدین حیدر نے پنجابی میں ان اذیت ناک دنوں  کے بارے میں ناول لکھنا شروع کیا ہے،جب انہیں مارچ ۱۸۹۱ میں شاہی قلعہ میں چھ ماہ تک رکھا گیا تھا۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے