تنہائی بھی سناٹا بھی احساس زیاں بھی

اب ہجر میں شامل ہے کوئی زرد نہاں بھی

اک پھول کی صورت کبھی یادوں میں سجا ہے

اک سائے کے مانند وہ ہے ساتھ رواں بھی

آنکھیں ہوئیں مانوس مناظر سے کچھ کچھ ایسی

کرتیں ہیں تصور پہ حقیقت کا گماں بھی

دعویٰ ہے صداقت کا مگر مصلحتاً وہ

ڈرتی ہوں بدل دے گا کبھی اپنا بیاں بھی

محرومی کی باتوں سے نہیں خوف کہ ہم تو

وہ لوگ ہیں جو چھوڑکے آئے ہیں مکاں بھی

خوش رہتی ہوں اک داہمی ہجرت کے یقیں سے

خالق نے بنایا ہے کوئی اور جہاں بھی

جب زخم کے بھر جانے کی تدبیر کرونگی

مٹ جائیں گے سب درد کسک اور نشاں بھی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے