دیوتابپھرے چنگھاڑتے پھرتے ہیں

کالی جبینیں،ناتریشیدا بال

اپنے اپنے شبدوں کی تسبیحاں کرتے دندناتے

چوڑی چھاتیاں لیے

تکبر کے خمیر میں گندھے

فتووں کی تلاش میں کوشاں

ادھر تو

جبیں موحد ہے

دل جھکتا نہیں

روح تڑپتی نہیں

قدم مستقیم ہیں

ہتھیلیاں سلی ہوئی۔

مگر وہ دیوتا

اپنی بدبوگار

غلیظ بغلوں میں

اپنے بنائے

کبیرہ و،صغیرہ

اعمال نامے لیے

کہ۔جن میں

نیکیوں کے لکھنے کو

سفید اوراق بھی نہیں

سیاہی سیاہی

جو،وہ

اپنے سجدوں کی کالک

اتار کے لکھتے

اور،اپنی پارسا ئی

کی سیڑھیاں چڑھتے جاتے

قدموں تلے انکے

قرار دیے گیے

منکر و زانی

مسلتے جارہے ہیں

لیکن۔

ان دیوتاؤں کی الوہی مناجاتوں کی گونج

انکے قراردہ گناہگاروں کی فریادوں کے الم کو

دبائے جاتی ہے

دیوتامعاف کرنا نہیں چاہتے

کہ

انکی بنائی جہنمیں خالی ہیں۔

جبکہ اُن کی جنتوں کی حوریں

وہ حوریں

کہ جنکو

ونی کی سزا سے خدا بچالائے تھے

اپنی رستی رانوں کے درمیان سے

مسلسل نکلنے والے لہو کو

مرہم بنانے کو

جہنم کی آگ میں

جلائے جانے والے گنہگاروں کی ہڈیوں کی راکھ کی آس میں

دعاگو،ہیں

کہ اب دیوتا فیصلہ کریں

اور بھری جہنموں سے

گناہگاروں اور زانیوں کی

راکھ چرا کر وہ

پاکباز دیوتاؤں کے

دیے گیے

ہوس پرست نوکیلے دانتوں سے

بھنبھوڑے ہوئے رستے زخموں کو وہ

جہنمیوں کی خاک

کی مرہم

بنا کر

سکوں پا سکیں۔

اعمالنامے بھرتے دیوتا

رات کو ایک بار پھر

اپنی اپنی شرع کی پیروی کیلیے

فولادی کشتے پیس،رہے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے