دم گھٹتا ہے ۔۔۔ فاطمہ حسن
ہتھکڑیوں اور طوق سے بڑھ کر بھاری بوجھ گھونٹ رہا ہے دم میرا ماں سانسیں میری روک رہا ہے دم گھٹتا ہے ماں آہ یہ گھٹنا کیوں نہیں ہٹتا صدیوں…
ہتھکڑیوں اور طوق سے بڑھ کر بھاری بوجھ گھونٹ رہا ہے دم میرا ماں سانسیں میری روک رہا ہے دم گھٹتا ہے ماں آہ یہ گھٹنا کیوں نہیں ہٹتا صدیوں…
کوئی نہ جانے راز ازل کا کہ، دل جب ماتم کرتا ہے وہ خوشی کا لبادہ اوڑھے ہنسی کی جھنکارکی چلمن پیچھے بال پھیلائے مانگ میں چاہ کی راکھ سجائے…
یاد ہے یا د ہے ایک اک مرحلہ یاد ہے بیس لوگوں کا وہ قافلہ ایک تاریک گھاٹی میں داخل ہوا اور پھر جیسے زنداں کا در کھُل گیا بھولنے…
میں نے نہیں چاہا کے یہ ہاتھ مٹی کو چھونے سے ڈریں باہر جانے سے رکیں ہاتھ ملا نے سے رکیں گلے لگانے سے ڈریں میں نے نہیں چاہا کہ…
اس نے کہا یہ جام دیکھ مئے ارغوان سے بھرا ہوا یہ جام دیکھ یہ شام دیکھ! چمپئی کھلی کھلی موتیے کے ہار میں چاندنی گندھی ہوئی اور چاندنی بھی…
کوئی ایک جملہ کوئی ایک لمحہ کوئی ایک ساعت مٹا کے دوبارہ سے لکھ دے ہمیں کہاں ایسا ہوتا ہے۔۔ لیکن ہوا بہت کم سخن ایک ساعت مخاطب تھی ”…
زرد رتوں.بیمار فضاؤں سے کہدو, ابھی خوشبو کو گلاب رنگوں کو خواب رگوں میں جمے سیال کو لہو لکھنا,ہے. بے کیف و ساکت منظرکو خوش خصال لکھنا,ہے ان چڑیوں کو…
شہر آباد کیوں نہیں کرتے تم ہمیں یاد کیوں نہیں کرتے درد محسوس کیوں نہیں ہوتا کوئی فریاد کیوں نہیں کرتے ٹوٹ کر آسمان سے تارے پوری میعاد کیوں نہیں…
چیری کے شگوفوں جیسے لب ادھ کھلے، چمکیلی آنکھوں سے جن میں جیسے کانچ کوٹ کر بھر دیا گیا ہو۔ ستارہ اک ٹُک نوری کو دیکھتے ہوئے، روٹیاں اپنی چنگیرپر…
میرا کوئی امیج نہیں۔ میں کسی وقت، کسی بھی لمحے کچھ بھی کر سکتی ہوں۔”، اس نے اپنی ہی کہی ہوئی بات کو دہرایا۔ رات تین بجے وہ بے چین…
وہ رات دیر گئے گھر آیا تو اس کی تھکن دیکھ کر بیوی سب سمجھ گئی۔ فوراً بولی ”آپ ابھی نہائیں گے یا بعد میں؟ گیزر آن ہے ویسے تو،…
اب تو عادت سی بن گئی ہے۔ میں شام ڈھلتے ہی لارنس باغ کی سیر کو نکل جاتا ہوں۔ لارنس مجھے سحر زدہ کر دیتا ہے۔ تازہ ہوا، خوشگوار فضا،…