بہت سال بیتے ہمارے گھر میں ایک رسالہ چین با تصویر کے نام سے آیا کرتا تھا۔ اس کے ایک شمارے میں ٹرین کا ذکر تھا جو شنگھائی سے کینٹن جا رہی تھی۔ لمبا سفر تھا راستے میں طلوع آفتاب کی گھڑی آئی۔ ٹرین کو روک دیا گیا اور سب مسافروں سے کہا گیا کہ وہ ٹرین سے اُتریں۔ طلوع آفتاب سے لطف اندوز ہوں، تازہ ہوا کے جھونکے اپنے چہروں کو محسوس کرنے دیں اور کچھ ورزش بھی کر لیں اور ٹھیک پندرہ منٹ کے بعد ٹرین اپنے مسافروں کو لے کر پھر روانہ ہوگئی۔یہ تھی ریاست کی ایک کوشش کی جھلک جس میں گراں خواب چینوں کو سنبھلنے میں مدد دی جا رہی تھی۔

انفرادی سطح پر ہمیں مہاتما گاندھی نظر آتے ہیں، جنہوں نے برصغیر کے لوگوں کو کچھ غلط عادتیں چھوڑنے کی کوشش میں مدد دی۔ کچھ صحیح رویے Cultivateکرنے پر آمادہ کیا۔

بات جب اَمن کی ہوگی تو پھر کچھ رویے، کچھ عادتیں کچھ سوچ کے دھارے بدلنے ہوں گے۔ چونکہ اگر یہی سوچیں قائم رہیں تو آج کا یہ جنگی جنون کبھی نہ ختم ہوگا۔ اس جنگی جنون میں مبتلا اگر صرف مسلمانوں کو ہی دیکھا جائے تو آج کا مسلمان صرف لڑ رہا ہے۔ مسلمان ہندوؤں سے لڑ رہا ہے، مسلمان یہودیوں سے لڑ رہا ہے، مسلمان کرسچین سے لڑ رہا ہے، مسلمان کمیونسٹوں سے لڑ رہا ہے اور پھر بھی اتنی قوت اور وقت بجا لیتا ہے کہ مسلمان مسلمانوں سے لڑ رہا ہے۔ جب اتنا لڑا جائے گا تو پھر ایک کلچر ایسا بنایا جائے گا جسے ہم Culture of Killers کہہ سکتے ہیں۔ اس Culture of Killers کی ایک شکل تو یہ ہے کہ ہماری textbooks میں بھی انہی شخصیات کو زیادہ نمایاں جگہ دی جاتی ہے جو اچھے killersتھے۔ ہمارے طالب علموں کو ان کے نام زبانی یاد ہیں، لیکن اگر ان سے انسان کے محسنوں کا نام پوچھا جائے تو شاید انہیں علم بھی نہ ہو۔ اس کلچر میں کچھ اس طرح کا mindsetتیار ہو جاتا ہے کہ ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ انسان شاید پیدا ہی اسی لئے ہوتا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر یا Nationalismکے نام پر اچھا Killerبن سکے۔ اور ہم جیسے ملک اس Culture of Warکو Promote کرنے کے لئے بہت سارے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔ مثلاً کسی قومی دن پر پریڈ، Banners، جنگی ہوائی جہازوں کی قلا بازیاں ہر نئی سڑک کسی شہید کے نام پر تمغے، جائیدادیں، یہ سب اور اس کے ساتھ War Hysteria پیدا کرنے کے لئے کہانیاں، ترانے، نظمیں وغیرہ۔ یہ War Hysteriaدنیا کے حکمران طبقے کو بہت Suitکرتا ہے۔ انہیں عوام کی خوشحالی اور بہتری کے لئے سوچنے کی تکلیف نہیں کرنی پڑتی۔ انہیں دولت کو اس طریقے میں خرچ کرنے کا موقع ملتا ہے، جہاں انسان کی بہترین صلاحتیں اس کی بدترین تباہی کے لئے استعمال ہوں، جہاں انسان اور خصوصاً عورتوں کی محنت کو Socially Uselessطریقے سے ضائع کر دیا جائے۔ انسان کو جنم دینا اور اس کی پرورش عورتوں ہی کی ذمہ داری ہے۔ یہ جنگ عورت کی اٹھارہ سال کی محنت پلک جھپکتے ہی مٹی میں ملا سکتی ہے۔

جنگ ایک بہت ہی پیچیدہ حقیقت ہے، اس کو ختم کرنے کے لئے اس کے خلاف بہت سارے Culturalمحاذ کھولنے پڑیں گے۔ پہلا محاذ Languageاور اس کا استعمال ہے۔ ہمیں اپنی زبانوں سے وہ لفظ ختم کرنے ہوں گے جو جنگ کو ایک Valueکے طور پر پیش کرتے ہیں۔ زبان شعور سازی میں ایک اہم کردار ہے۔ زبانوں کی آپس کی دشمنیاں ختم کرنی ہوں گی۔ زبان نام ہے، انسان کو اپنے تجربے کو نام دینے کی کوشش کا۔اور تمام مخلوق خدا نے اپنی اپنی زبان میں کوشش کی ہے کہ اپنے تجربے کو نام دے کر ایک دوسرے کو Communicateکرے، زبانیں ایک دوسرے کو Illuminateکرتی ہیں اور تہذیبیں بھی Culture illuminating رول میں آجاتی ہیں۔ ہم دوسروں کی تہذیب کو اور زبان کو rejectنہیں کریں گے نہ کم تر سمجھیں گے بلکہ ایک دوسرے سے روشنی حاصل کریں گے۔ اپنی تہذیبوں کی بہتری کے لئے اپنے ذہنوں کو منور کرنے کے لئے۔

دوسرا (Cultural)محاذ ہم اُن تنظیموں کے خلاف کھول سکتے ہیں جو صرف Powerکو Valueسمجھتے ہیں اور Powerبھی اس لئے کہ ہم اپنا Controlقائم کر سکیں اور رکھ سکیں۔ ہمیں ایسی تہذیب بنانی پڑی گی جو Love for power پر اپنی بنیاد قائم نہ کرے۔

تیسرا محاذ نفسیاتی سطح پر کھولنا ہوگا۔ ہمیں انسان کی فطرت کے بارے میں نقطہ نظر بدلنا ہوگا۔ انسان کے بارے میں یہ بوسیدہ نقطہ نظر ترک کرنا ہوگا کہ وہ صرف جنگ کی صورت حال پیدا کر سکتا ہے، جنگ کا حصہ بن سکتا ہے اور پھر جنگ کی غذا بن سکتا ہے۔ انسان ایک بڑا موسیقار، رقاص مصور، شاعر، سائنسدان، فلاسفر بننے کے لئے دنیا میں آیا ہے۔ یہ بات ہمیں اپنے آپ کو Remindکروانی پڑے گی۔

اور چوتھا محاذ ہے Population کا۔ ہمیں تعداد کی بجائے نسل انسانی کی qualityبہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس Branch of Scienceسے رابطہ کرنا چاہے جو اس مقصد پر focusedہے کہ ایک بہتر دل و دماغ کے ساتھ انسان دنیا میں کیسے آئے۔

اور سب سے آخر میں ہمیں یہ سمجھنا ہوگا علم کا نہ کوئی وطن ہے نہ مذہب ہے نہ ذات ہے۔اور علم جہاں بھی Produceکیا جاتا ہے یا کیاجاتا تھا، انسان کی میراث ہے۔ گوتم بدھ ہو یا سقراط، فرائیڈ ہو یا آئن سٹائن۔ انسان کو وحدت سمجھتے ہیں۔ ایسی وحدت جو انفرادی سطح پر ترقی کر سکتی ہے اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب ہم Culture of War کو ترک کرکے Culture of Peaceکو ممکن بنانے کی کوشش کریں۔

ہمیں اَمن کواپنے ذہن کا حصہ بنانا ہوگا۔ Culture of Peaceکو Promoteکرنے والا Mindset ہر ناممکن جگہ پر جلوہ افروز ہو سکتا ہے اور اس کی ایک مثال جوش ملیح آبادی کی Autobiography  یادوں کی بارات میں ہے۔جوش صاحب لکھتے ہیں۔ ”چوں کہ وہ جنگ عظیم کا زمانہ تھا اور فوجی گاڑیوں تک کسی کو جانے نہیں دیا جاتا تھا۔

اس لئے میں بڑے شش و پنج کے عالم میں یہ سوچتا ہوا بیٹھا رہا کہ گر کسی نے دیکھ لیا تو جاسوسی کے جرم میں کھڑے کھڑے گولی مار دی جائے گی یاگرفتار کر لیا جاؤں گا۔ خدا خدا کرکے شاید گیارہ بجے انجن نے سیٹی دی اور میں لپک کر گارڈ کے ڈبے کے پیچھے بمپر پر بیٹھا گیا۔۔۔ اتنے میں یورپین گارڈ نے پیچھے کی کھڑکی کھول دی۔۔۔ پستول جیب سے نکال کر تان لیا اور ڈپٹ کر پوچھا Who is there۔ میں نے بڑی مردانہ آواز میں کہا Shut up, that is love, affair گارڈ اگر ہندوستانی ہوتا تو میں ٹھائیں سے گولی مار دیتا۔ مگر وہ انگریز فوجی منچلا انگریز تھا۔ میرا یہ مردانہ جواب سن کر اس نے کہا Bravo Bravoاور دونوں ہاتھوں سے مجھ کو اندر کھینچ لیا۔ اس نے لالیٹن اٹھا کرغور سے میرا منہ دیکھا اور مسکرا کر کہا Oh! an exact lover’s faceاور پھر بڑی نرمی کے ساتھ اس نے کہا۔

Please sit down mister lover, I am also a lover.

میں بیٹھ گیا تو اس نیک مرد نے مجھ کو بیئر پلائی بھنا ہوا گوشت کھلایا اور جب میرا  اسٹیشن آگیا تو میرے ساتھ آکر مجھ کو گیٹ سے باہر نکال دیا۔

ذرا غور کریں! جنگ عظیم، اسلحہ سے لدی ٹرین، فوجی انگریز گارڈ اور محکوم قوم کے ایک Loverکا احترام اور خاطر و مدارت۔

یہ لفظوں میں بنائی ایک Paintingہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔ شاید یہ کہہ رہی ہے کہ دنیا صرف محبت کرنے والوں سے محبت کرتی ہے، شاید یہ بھی کہہ رہی ہے کہ اَمن کے نام پر پہلی اینٹ کہیں بھی رکھی جا سکتی ہے۔ پہلا قدم کبھی بھی اُٹھایا جا سکتا ہے۔ اسلحے سے لدی ٹرین میں بھی۔

یہ Paintingشاید ہمیں یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ ہمیں Principles of hope and peace جلدی discovers کرنے ہونگے۔ جلدی Implement کرنے ہونگے۔

نہیں تو اسلحے سے لدی ٹرین دھرتی کی کروڑوں سال کی محنت سے تخلیق کیا ہوا شاہکار انسان اور انسان کے تخلیق کردہ شاہکاروں کا فیصلہ ہو جائے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے