کوئی نہ جانے

راز ازل کا

کہ،

دل جب ماتم کرتا ہے

وہ  خوشی کا لبادہ اوڑھے

ہنسی کی جھنکارکی چلمن پیچھے

بال پھیلائے

مانگ میں چاہ کی راکھ سجائے

دن رات،

آہ و زاری کرتا ہے

اس کے بین سن سن

گھائل روح

کلبلاتی پھرتی ہے

پھر  وہ گھائل روح

خاموشی سے،

آنکھوں کے دریا پہ

اپنی پھونک  سے

یادوں کے سنگریزوں سے تراشیدہ

نوکیلے پتھروں کے بنے

پل باندھنا شروع کر دیتی ہے

کہ اگر

اشکوں کا

ایک بھی ریلا باہر نکل پڑا

تو بھید ازل کا

کھل  جائے گا

جسم کا خاکی

یہ تمام تماشا،

سہہ نہیں پاتا

دوا  دارو پیتا ہے

مگر

کوئی دنیاوی شے

سکون نہیں دے سکتی

اور وہ

ہر وقت آہ اور چاہ کی آگ میں  جلتا اور چٹختا رہتا ہے

کبھی سیاہ پڑتا ہے   تو کبھی پیلا

ہم،

طبیب ڈھونڈ ڈھونڈ

ہار جاتے ہیں،

دوا  تو خاکی کو میل کھائے

مگر،

دل لاچار

خاموشی سے

اشکوں کے سمندر میں

آہوں کی دوا

انڈیلتا رہتا ہے.

خاکی

افاقہ نہ ہونے کا شور مچا دیتے ہیں.

روح خاموشی سے تماشا دیکھتی ہے،

اور کدال لیے

دل میں ہر ایک لمحے،

ایک قبر کھودتی ہے

اور کوئی نہ کوئی یاد

دفناتی جاتی ہے

ہمارا مالک ہمارا آقا

دماغ،

یادوں کے قبرستان کا داروغہ

مصروف سعی لاحاصل میں

کہ،

تمام مرقدوں  کی

دیکھ بحال ہوتی رہے.

تاکہ کسی یاد کی لاش سے

تعفن نہ اٹھے.

یہ وہ قبرستان ہے،

جس میں،

کبھی بھی

جگہ کی قلت نہیں ہوتی.

اور

ہمارے دل کے ٹکڑے

مانند لوح

روح کی مرقدوں پہ

آویزاں ہوتے ہیں.

اکثر،

ہمیں جب

کوئی  یاد ستاتی ہے

تو،

لوح دل

سسک کے  رسنے لگتی ہے.

اور

ہماری روح کے اوراق پر

اک یاد

خون قلم سے

راز ازل کو لکھتی ہے.

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے