میں نے نہیں چاہا

کے یہ ہاتھ

مٹی کو چھونے سے ڈریں

باہر جانے سے رکیں

ہاتھ ملا نے سے رکیں

گلے لگانے سے ڈریں

میں نے نہیں چاہا

کہ یہ ڈر کے جئیں

یہ جان کے جئیں

کہ باہر جانے سے ڈرنا ہے

کہ باہر تو جان لیوا وائرس ہے

یہ کہنا نہیں چاہا تھا

کہ سیپیوں سے موتی نہ ڈھونڈنا

مٹی کے گھر نہ بنانا

کھلی فضا میں سانس نہ لینا

اور

خواب نہ دیکھنا

مگر اب سکھاؤں گی

کہ کوئی ہنس کے دیکھے تو

مسکرانا نہیں ہے

کہیں انساں نظر آجائے

تو پاس جانا نہیں ہے

اب مٹی کے گھر نہیں بنانے

نا جانے کس نے چھوا ہو

اب سیپیوں کو نہیں چننا

نا جانے ساحل پے کون رہا ہو

اب گھر پہ رہنا ہے

نہ جانے کب تک

اب سکول نہیں جانا

نہ جانے کب تک

اب یہ سکھانا ہے

کہ ڈرنا کیسے ہے

کیسے ڈر ڈر کے جینا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے