خوش گمانیوں کا سفرِ ناتمام
موضوع اس کالم کا کچھ اور سوچ رکھا تھا۔اتوارکی صبح اُٹھا تو جانے کیوں یاد آگیا کہ آج پانچ جولائی ہے۔ یہ دن 1977میں بھی آیا تھا۔زندگی کے کئی برس…
موضوع اس کالم کا کچھ اور سوچ رکھا تھا۔اتوارکی صبح اُٹھا تو جانے کیوں یاد آگیا کہ آج پانچ جولائی ہے۔ یہ دن 1977میں بھی آیا تھا۔زندگی کے کئی برس…
(“آصف فرخی“ کے لیے) وہ جو کورا کاغذ میز پر پڑا ہوا ہے اس کاغذ پر اْس کو کچھ لکھنا تھا کیا لکھنا تھا؟ کوئی نام گام یا کوئی کام…
آج کل میری پوروں کی سب جنبشیں۔۔ تیرے دلکش خدوخال گنتے ہوئے۔۔ رنگ، خوشبو لفظ عشق لکھتے ہوئے۔۔۔۔ تجھ کو گنتے ہوئے، تجھ کو چنتے ہوئے۔۔۔۔۔ کینوس پر برش سے…
کیا تجھے ہے خبر کتنی چپْ کس کے اندر کہاں قید ہے؟ میرے کتنے نئے روپ ہیں کتنی سانسیں ابھی چل رہی ہیں مرے دل کی اس تھاپ پر کتنے…
زخم دل،اشک اور یہ لب کسں قدر ویران ہوں میں کیا ہوں۔۔۔۔۔؟ کیوں ہوں میں۔۔۔۔۔؟ سخت پریشان ہوں میں پری پیکر ہوں یا بسں نشان کہیں بے سخن، بے کلام…
کبھی کبھی جب اپنا چہرہ دیکھتی ہوں ڈر جاتی ہوں سوچ میں ہی پڑجاتی ہوں کون ہے میرے روبرو ویران انکھوں والی حسرت جس نے پالی پھر بھی چھب نرالی…
ذرا سی بات پہ معتوب ہو گئے ہم لوگ زباں جو کھولی تو مصلوب ہو گئے ہم لوگ وہ بارگاہِ تمنا، یہ جوشِ رقصِ جنوں قبائیں چاک ھیں مجذوب ہو…
زندگی نام کی فاحشہ کے منہ کو خون لگا ہے یہ بھینٹ چاہتی ہے ایک کنواری کنہیا کی بھینٹ یہ ہی تو صدیوں کی رِیت ہے قحط پڑا ہے اناج…