کیا تجھے ہے خبر

کتنی چپْ

کس کے اندر

کہاں قید ہے؟

میرے کتنے  نئے روپ  ہیں

کتنی سانسیں ابھی چل رہی ہیں

مرے  دل کی اس تھاپ پر

کتنے چہروں پہ جا کے رکی ہے نظر

کتنے پیروں میں ٹہرا ہوا ہے سفر

 

میں ازل سے ابد تک ہوں پھیلا ہوا

میں وجود و عدم  سے کہیں دْور ہوں

 

لے لہو کی مرے بھینٹ لے

مجھ کو مسمار کر

میرے ٹکڑوں کو جاکر کہیں پھینک دے

یا جَلا دے مجھے

 

اپنی مٹھی میں بھِینچے میَں خاکِ نمو

بس ذرا دیر میں

پھر سے اْٹھ جاؤں گا

 

میں ستاروں پہ واپس چلا جاؤں گا

پھر سے آکے بساؤں گا تازہ جہاں

پھر سے آکے جگاؤں گا تارِ نَفَس

پھر سے کْن کی سناؤں گا مَیں داستاں

 

میں کہ مَٹی سے نکلا ہوا پْھول ہوں

میں کہ پانی کے قطروں میں ہوں منجمد

میں کہ تاروں کی بکھری ہوئی دْھول ہوں

 

تو وباؤں کے گرداب کا

کوئی چکر چلا

جا کے تحت الثریٰ

کوئی آسیب لا

 

تو مجھے ختم کر ہی نہیں پائے گا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے