وہان سے پھیلنے والے اس نحیف وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب وائرس کئی ملکوں تک پہنچ گیا تو اعلان ہوا کہ یہ وائرس نیا ہے جس کی نہ تو کوئی ویکسین ہے اور نہ کوئی دوا۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ نظر نہ آنے والی بے جان مخلوق سرحدیں پار کرتی گئی، اورلوگوں کو بلاتفریق اپنی لپیٹ میں لیتا گیا۔

دنیا نے اس وائرس کو کس انداز میں لیا، وہ الگ بحث ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ وائرس لوگوں کے لیے مذاق بنتا، اپنا مذاق اڑواتا اور لوگوں کا مذاق اڑاتا گیا۔ کسی نے اس باؤ لے وائرس کے دماغ کو دیسی نسخوں سے ٹھیک کرنے کی ٹھان لی تو کسی نے اس کو سراسر جھوٹ کہہ کر جھٹلا دیا۔

شروع میں یہ کہ کر اسے خدا کا عذاب قرار دیا گیا کہ چوں کہ غیر مسلم حرام کھاتے ہیں، اس لیے انھیں یہ ہوگیا اور چوں کہ ہم خدا کی بتائی ہوئی پاک چیزیں نوش کرتے ہیں لہٰذا ہم رزسٹینٹ ہیں۔ پھر ایران میں وبا پھیلی تو کہنے لگے یہ شیعہ کو تو ہو سکتا ہے لیکن سنی کو نہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سعودی عرب  میں لوگ بیمار ہوگئے تو لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ہاں چوں کہ فلسطین اور کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے اور سب مسلمان تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں، اس لیے باقی سب مسلم و غیر مسلم تو بیمار ہوگئے لیکن یہ علاقے (فلسطین و کشمیر) وائرس سے محفوظ ہیں۔ لیکن پھر افغانستان، کشمیر اور فلسطین بھی اس کی زد میں آگئے۔

اب کوئی اور راستہ نہ بچا تو سرے سے وائرس کو ماننے سے ہی انکار کرنے لگے۔ لیکن بدقسمتی سے نہ ماننے والے خود وائرس کا شکار ہوئے اور ان کے بچے بیمار پڑگئے۔ سب یک لخت بیمار ہو کر علاج کے لیے نرسوں اور ڈاکٹروں کے ہاتھ پاؤں پکڑنے لگے۔ ہسپتال کے وینٹی لیٹر، ڈاکٹر کی سپورٹو تھیراپی نے چند ایک کی جان تو بچا لی لیکن اسی کشمکش میں بہت سے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

کاش کہ شروع ہی سے اس وائرس کو سنجیدہ لیتے، حفاظتی تدابیر اپناتے، اس کو مذاق نہ سمجھتے تو شاید کئی جانیں بچ سکتی تھیں۔ قصہ مختصر، اس بے حس و بے جان و بے کار وائرس نے مُلاکی پگڑی، سرمایہ دار کی فیکڑی اور سرکار کی سیکریٹری  پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ ملا کی بے ایمانی، سرمایہ دار کی سفاکی اور سرکار کی چالاکی کھل کر عوام کے سامنے آنے لگی۔

ٓٓآپ خود ملاحظہ کیجیے کہ اس وائرس نے کس طرح لوگوں کا مذاق اڑیا۔ سپر پاور امریکہ ہو یا اسلامی دنیا کا چیمپیئن پاکستان، مہلک سے مہلک ہتھیار یعنی ایٹم بم ہونے کے باوجود اپنے لوگوں کی جان بچانے میں بے بس دکھائی دینے لگے۔ لاک ڈاؤن لگانا پھر اس کو ہٹانا، لوگوں کو ایس او پیز پر عمل کروانا اور پھر خود ان کی دھجیاں اڑانا، وائرس کو محدود رکھ کر ختم کرنا اور پھر اس کو کھلی چھوٹ دینا اور عوام کے ہرڈ امیونٹی حاصل کرنے پر اکتفا کرنا، یہ سب حکومت اور حکومتی اداروں کی بوکھلاہٹ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

حکومت اور اس کے منصوبے عوام کے سامنے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ عمران خان سمیت عسکری و سیاسی قیادت ہینڈزاپ کرچکی۔ تبدیلی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے خود تبدیل ہوچکے ہیں۔ ڈی چوک پر دھرنا دینے والے عوام، نچ پنجابن والے ہیرو، تبدیلی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے صحافی، سب اپنی دیرینہ غلطی کے احساس میں سیلف کورنٹائن ہوچکے ہیں۔

یہاں وائرس نے عوام کے رہن سہن، دہن و جسم، عقل و فہم، سیاست و سماجی روایات اور  دینی معاملات، غرض ہر معاملے پر اپنا اثر چھوڑا ہے۔ یہ ہمیں ایک نئی ڈگر پر لے جانے، سماج کا رخ بدلنے اور وقت کے دھارے کو ایک نئی راہ دکھانے کے لیے تیار بیٹھاہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سماج میں اتنا بڑا فُل سٹاپ لگ سکتا ہے۔

مشینوں کی طرح کام کرنے والا انسان جب بارہ گھنٹے سکون کی نیند کرکے اٹھا تو وہ نیند و رات کی اہمیت کو جان سکا۔ سڑکوں پر فر فر کرتی گاڑیوں کے شور، فیکٹریوں کے دھویں نے جب الوداع کہا تو گلوبل وارمنگ و اوزوں لئیر نے جشن کا اہتمام کرکے انسانی ہمدردی کے گن گانے شروع کردیے۔ نیچر کو تباہ کرنے والا سرمایہ دارانہ نظام جب خود تباہی کا شکار ہوا تو سمندر میں تیرتی مچھلی سے لے کر فضا میں اڑنے والے کبوتر تک سب گانے میں مصروف ہوگئے۔

موجودہ تباہی سے سبق حاصل کرکے انسان کو انسانیت کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ اسے اپنے منصوبوں کو ریوائنڈ کرکے نئے سرے سے ترتیب دے کر انسان دوست، نیچر دوست بنانا  ہو گا۔ اس کو کمپیٹیشن و جنگ و جدل سے نکل کر خوش حالی و امن کی طرف اپنی شاہرائیں بنانا ہوں گی۔ اس کو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل، کے فلسفے کو عملی جامہ پہنانا ہوگا، اس کو قدرت سے دوستی کی روایتوں کو زندہ کرنا ہوگا۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے