آسماں سے جو شب گرا ہوگا

سرمئی جھیل میں پڑا ہوگا

 

خواب وادی میں نیند جھرنے سے

دودھیا چاند بہہ رہا ہوگا

 

بخت کی ملگجی ہتھیلی پر

آتشیں پھول کاڑھنا ہوگا

 

لاکھ روکا گھڑی کو چلنے سے

ریت لمحہ پھسل گیا ہوگا

 

قمقمے تھک کے سو چکے ہوں گے

پر وہ جگنو ہے جاگتا ہوگا

 

بالکونی میں بال جب کھولے

چاند کھڑکی میں آ رکا ہوگا

 

ٹین کی چھت ٹپک رہی ہوگی

بھوک نے پیار کھا لیا ہوگا

 

قبر پہ قبر بن گئی لیکن

موت کا پیٹ کب بھرا ہوگا

 

ایک دن آئے گا جوابی خط

فینٹسی ہے کہیں خدا ہوگا

 

اس عجائب بھری جلیبی کا

ہو نہ ہو آخری سرا ہوگا

 

سبز قندیل کی اجازت سے

سرخ سورج ابھی اْگا ہوگا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے