”………… انسان تبھی لکھتا ہے جب اُسے اس کی خواہش ہوتی ہے۔ اس طرح کی تحریر سورج کی روشنی جیسی ہوتی ہے جو بہت دور موجود چمک کے سرچشمے سے آرہی ہو۔ نہ کہ ایک چقماق کی رگڑ سے پیدا شدہ چنگاری کی طرح۔ یہی واحد آرٹ ہوتی ہے اور اسی طرح کا مصنف ہی سچا آرٹسٹ ہوتا ہے ………… مگر میں ………… میں کس شمار میں آتا ہوں؟“۔

بہت دیر تک سوچتے رہنے کے بعد وہ اچانک بستر سے اچھل کر باہر آگیا۔ اُسے لگا کہ اسے لکھنے سے کچھ پیسے کمانے چاہییں تاکہ وہ  خاندان کی کفالت کرسکے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے مسودے”مسرور ماہانہ پبلشرز“ کو بھیجے گا اس لیے کہ اس کے معاوضے نسبتاً اچھے تھے۔ مگر اس صورت میں مضامین کاانتخاب اُن کے ہاتھ میں ہوگا اور اس طرح یہ انتخاب محدود ہوجائے گا، بصورت دیگر تحریر کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ چلو ٹھیک ہے، اسے محدود ہونے دو۔

نوجوان نسل کے ذہنوں میں سب سے بڑے مسائل کیا ہیں؟………… بلاشبہ ان مسائل کی تعداد کم ہوگی، محبت سے متعلق، شادی، خاندان………… ہاں، یقینا بہت سارے لوگ ایسے معاملات میں الجھے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ وہ ان پر بحثیں کرتے ہیں۔ چنانچہ خاندان کے بارے میں لکھا جائے! مگر کس طرح لکھا جائے؟ ………… بصورت دیگر پبلشر اس کی تحریر قبول نہ کرے گا۔

کیوں بدقسمتی کی پیشن گوئی کی جائے؟ پھر بھی…………

بستر سے اچھل کر وہ تین چار قدموں میں ڈیسک تک پہنچا۔ بیٹھ گیا، سبز لائنوں والا ایک کاغذ نکالا اور فوراً ہی عنوان لکھا: ایک مسرور خاندان۔

اس کا قلم فوراً ہی رک گیا۔ اس نے سراٹھایا، اپنی دونوں آنکھیں چھت پر ٹکادیں اور اس مسرور خاندان کے لیے ایک ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

”پیکنگ؟“ اس نے سوچا۔ ”نہیں اِس سے کام نہیں چلے گا۔ یہ بہت زیادہ مردہ شہر ہے، حتیٰ کہ اس کی فضا بھی مردہ ہے۔ نہیں، یہ ٹھیک نہیں رہے گا۔ کیا نگسو اور چکیانگ کسی بھی دن لڑائی شروع کرلیں گے۔ سی چو آن؟ گوانگ تنگ؟۔ وہ تو جنگ کے بیچ میں ہیں۔ شان تنگ یا ہونا ن کیسے رہیں گے؟………… نہیں نہیں، وہاں تو میاں بیوی میں سے ایک کو اغواء کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہوجائے تو مسرور خاندان ایک ناشاد خاندان بن جائے گا۔ شنگھائی اور ٹی انٹس کے خارجی ممالک والے علاقوں میں کرائے بہت زیادہ ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ یونان اور کوی چواؤ کیسے شہر ہیں، مگر وہاں سڑکیں بہت بری حالت میں ہیں …………“۔

اس نے اپنے دماغ پر بہت زور ڈالا مگر اُسے کوئی اچھی جگہ نہیں سوجھی۔ اس لیے اُس نے جگہ کا نام ”A“ رکھا…………البتہ اس نے سوچا کہ ”آج کل بہت سے لوگ جگہوں یا انسانوں کے ناموں کے لیے مغربی حروفِ تہجی کے استعمال پر اعتراض کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح قارئین کی دلچسپی کم ہوجائے گی۔ مجھے یہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اس صورت میں کونسا مقام اچھا ہوگا؟ ہونان میں بھی لڑائی ہورہی ہے؛ ڈیرین کے کرائے پھر بڑھ گئے ہیں۔ چاہار، کیرین اور ہیلنگ کیانگ کے بارے میں میں نے سنا ہے کہ وہاں غنڈے بہت ہیں، اس لیے وہ بھی استعمال نہیں کیے جاسکتے“۔

اس نے پھر ذہن پر زور دیا کہ کوئی اچھا مقام سوجھے مگر ناکام۔ بالآخر اس نے ”A“ استعمال کرنے کے لیے ذہن بنا لیا۔ Aنامی جگہ پر اس کا مسرور خاندان ہوگا۔

”اس کا مسرور خاندان Aمیں ہوگا ………… اس میں اب کوئی شک نہیں ہونا چاہیے“۔ ظاہر ہے خاندان میں میاں بیوی ہوں گے………… مالک اور مالکن …………  جنہوں نے محبت کی شادی کی۔ ان کی شادی میں چالیس مفصل شرائط ہیں۔ اس طرح انہیں غیرمعمولی مساوات اور آزادی حاصل ہے۔ مزید برآں وہ دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور مہذب الیٹ سے تعلق رکھتے ہیں ………… جاپان پلٹ سٹوڈنٹس اب کوئی فیشن نہ رہے لہٰذا انہیں مغرب  پلٹ سٹوڈنٹس قرار دیا جائے۔ گھر کا مالک ہمیشہ مغربی سوٹ پہنتا ہے۔ اس کا کالر ہمیشہ برف کی طرح سفید رنگ کا ہے۔ اس کی بیوی کے بال سامنے سے چڑیا کے گھونسلے کی طرح اوپر کو مڑے ہوتے ہیں،ا س کے موتی جیسے سفید دانت ہمیشہ باہر کی طرف جھانکتے ہیں، مگر وہ چینی لباس پہنتی ہے …………“۔

”نہیں یہ کام نہ دے گا۔پچیسسیر“۔

کھڑکی سے باہر ایک شخص کی آواز سن کر اُس نے اُس طرف دیکھا۔ کھڑکی پر لگے پردوں میں سے سورج کی شعائیں اس کی آنکھوں کو خیرہ کررہی تھیں۔اس نے آواز سنی جیسے کسی نے لکڑی کا گٹھا زمین پرپھینک دیا ہو۔”کوئی بات نہیں“ اس نے سوچا اور دوبارہ لکھنے میں لگ گیا۔”25 سیر، کس چیز کے؟“………… وہ مہذب الیٹ طبقے سے ہیں، آرٹ کے دلدادہ۔ مگر چونکہ وہ دونوں خوشحال خاندانوں میں پلے بڑھے ہیں، اس لیے وہ روسی ناول پسند نہیں کرتے۔ اکثر روسی ناول نچلے طبقات کو بیان کرتے ہیں اس لیے وہ ایسے خاندان میں نہیں پڑھے جاتے۔”25 سیر؟“۔  کوئی بات نہیں۔ اس صورت میں وہ کیسی باتیں پڑھتے ہیں؟ ………… بائرن کی شاعری؟ کیٹس؟۔ نہیں نہیں۔ اچھا میں بتاتا ہوں۔ وہ دونوں ”ایک مثالی شوہر“ پڑھنا پسند کریں گے۔ گو کہ وہ کتاب میں نے خود نہیں پڑھی، لیکن یونیورسٹی پروفیسر تک اس کتاب کی اتنی تعریفیں کرتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ یہ جوڑا بھی اُس سے محظوظ ہوگا۔ تم اسے پڑھو، میں اسے پڑھوں ………… ان دونوں کے پاس الگ الگ کتاب ہوگی۔ خاندا ن میں بہ یک وقت کتاب کی دو کاپیاں …………“۔

اپنے معدے  میں خالی پن کے ایک احساس کے ساتھ، اس نے قلم نیچے رکھ دیا اور اپنا سر ہاتھوں میں تھاما۔ جیسے ایک گلوب دو ایکسلوں پر رکھی ہو۔

”………… دونوں دوپہر کا کھانا کھارہے ہیں“۔ اس نے سوچا ”میز پر ایک سفید چادر بچھی ہوئی ہے۔ اور باورچی ڈشیں لارہا ہے………… چائنیز فوڈ…………”25سیر“  کس چیز کے؟ کوئی بات نہیں۔ یہ چائنیز فوڈ کیوں ہو؟ مغربی لوگ کہتے ہیں کہ چائنیز پکانا سب سے زیادہ ترقی پسند ہوتا ہے، یہ کھانے کے لیے بہترین ہوتا ہے، اور سب سے زیادہ صاف ستھرا۔ اس لیے وہ چائنیز فوڈ کھاتے ہیں۔ پہلی ڈش لائی جاتی ہے، مگر یہ پہلی ڈش کیا ہو؟…………“۔

”جلانے کی لکڑی…………“۔

وہ گردن گھماتا ہے تاکہ اپنے خاندان کی مالکن کو دیکھے کو جو اس کے بائیں جانب کھڑی ہے، اس کی دونوں سیاہ آنکھیں ا س کے چہرے پر مرکوز ہیں۔کیا؟“۔اس نے ناراضگی  کے انداز میں کہا، گویا بیوی کی آمد نے اس کے لکھنے میں رخنہ ڈالا۔

”جلانے کی لکڑی ختم ہوچکی ہے۔ اس لیے میں نے آج مزید خریدی ہے۔ پچھلی بار دس سیر کے لیے دو سوچالیس نقد دیے تھے، مگر آج وہ دو سو ساٹھ مانگ رہا ہے۔ میں اسے دو سو پچاس دے دوں؟“۔

”ٹھیک ہے۔دو سو پچاس دے دو“۔

”اُس نے اسے اچھی طرح نہیں تولا۔ وہ اصرار کرتا ہے کہ وہ ساڑھے چوبیس سیر ہیں، مگر میں اسے ساڑھے تئیس گنوں تو؟“۔

”ٹھیک ہے۔ اسے ساڑھے تئیس سیر گنو“۔

”پھر پانچ پنجے پچیس، تین پنجے پندرہ …………“۔

”اوہ پانچ پنجے پچیس، تین پنجے پندرہ …………“۔  وہ آگے نہیں جاسکتا تھا، مگر ایک لمحے کو رک کر اس نے اچانک قلم اٹھایا اور لائنوں والے اُس کاغذ پر حساب کتاب لکھا جس پر کہ اس نے لکھا تھا ”ایک مسرور خاندان“ ۔ اس پر کچھ وقت تک ضرب تقسیم کرنے کے بعد اس نے سر اٹھایا اور کہا:

” پانچ سو اسی نقد“

”اچھا؟ اتنے پیسے تو میرے پاس نہیں ہیں۔ اسی یا نوے کم پڑیں گے…………“۔

اس نے ڈیسک کا دروازہ کھولا اور اس میں موجود سب پیسے اٹھالیے ………… اور انہیں اُس کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر رکھ دیا۔ پھر اس نے اسے باہر  جاتے ہوئے دیکھا اور وہ بالآخر واپس اپنے ڈیسک پر متوجہ ہوا۔ اس کا سر پھٹ رہا تھا۔ لگتا تھا کہ وہ تیز انگاروں سے لبالب بھر ہوا ہو۔ پنج پنجے پچیس ………… اس کے دماغ  پر بکھرے ہوئے عربی ہند سے ابھی تک نقش تھے۔ اس نے پھر سوچنا شروع کردیا:

”کیا ڈش؟ کوئی بات نہیں۔ فرائی سوئریا مچھلی، مچھلی کے انڈے اور سمندری گھونگے بہت عام ہیں۔ مجھے انہیں ”اژدھا اور چیتا“ کھلانا چاہیے۔ مگر وہ اصل میں ہے کیا؟۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سانپ اور بلیوں سے بنا ہوا ہے اور یہ بالائی طبقے کی ڈش ہے جسے صرف بڑی ضیافتوں میں کھلایا جاتا ہے۔میں نے کیا نگسوریسٹورنٹ کا مینو دیکھا ہے، پھر بھی کیا  نگسوکے لوگ سانپ اور بلیاں نہیں کھاتے۔ اس لیے یہ یقیناًمینڈک اور مار ماہی کے بنائے جائیں۔ تو اب یہ جوڑا ملک کے کس حصے کا ہوسکتا ہے؟۔ کوئی بات نہیں۔ بہر حال ملک کے کسی حصے کے لوگ سانپ مینڈک اور مار ماہی کی ڈش کھاسکتے ہیں۔ کسی صورت میں پہلی ڈش ”اژدھا اور چیتے“ ہونی چاہیے۔اس میں کوئی اگر مگر نہ ہوگا۔

”اب جبکہ’اژدھا اور چیتے‘ کا پیالہ میز کے وسط میں رکھا ہوا ہے، وہ بہ یک وقت اپنے چاپ سٹکس اٹھاتے ہوئے، اپنی توجہ ڈش پہ مرکوز کرتے ہیں، اورایک دوسرے کی طرف مسکراتے ہیں اور ایک خارجی زبان میں کہتے ہیں:

”چیری سل وَس پلیٹ“

”وولز وہیں کمنسر، چیری“

”میس نان، اپریس وس“۔

”پھر وہ بہ یک وقت اپنے چاپ اٹھاتے ہیں اور بہ یک وقت سانپ کا ایک ٹکڑااٹھاتے ہیں ………… نہیں نہیں۔ سانپ کا گوشت واقعتا مخصوص آواز دیتا ہے، بہتر ہوگا کہ اسے مارماہی کا لقمہ کہا جائے۔ اچھا، تو اب یہ فیصلہ ہوچکا کہ ’اژدھا اور چیتا‘۔ دراصل مینڈکوں اور مار ماہی سے بنا ہے۔ وہ بہ یک وقت مار ماہی کے دو نوالے نکالتے ہیں، بالکل ایک ہی سائز کے۔ پانچ پنجے پچیس، تین پنجے………… کوئی بات نہیں۔اور بہ یک وقت اپنے اپنے منہ میں ڈال دیتے ہیں …………“

وہ سوچتا ہے:

”یہ ذرا جذباتی سا لگتا ہے؟ کوئی بھی خاندان اس طرح برتاؤ نہیں کرے گا جو مجھے اس طرح پریشان کرتا ہے؟۔ مجھے ڈر ہے کہ اچھا مضمون کبھی بھی نہیں لکھا جائے گا………… یا شاید انہیں یورپ  پلٹ سٹوڈنٹ ہونے کی ضرورت نہیں، چین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے لوگ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ وہ دونوں یونیورسٹی گریجویٹ ہیں، مہذب الیٹ………… مرد مصنف ہے عورت بھی مصنف ہے،  یا ادب سے محبت کرنے والی ہے۔ یا وہ شاعرہ ہے؛ اور مرد شاعری سے محبت کرتا ہے، عورتوں کی عزت کرنے والا۔ یا …………“۔

وہ کچھ فیصلہ نہ کرسکا۔

اس کے پیچھے کتابوں کی الماری کے پاس گوبھیوں کا ایک انبار نظر آیا، تین نیچے، دو اوپر اور ایک چوٹی پر۔ اُسے وہ ایک بڑا Aنظر آیا۔

”اوہ“ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ اسے اپنے گال جلتے ہوئے محسوس ہوئے، اور چھوٹے کیڑے اس کی ریڑھ کی ہڈی کے اوپر نیچے دوڑتے رہے۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی تاکہ ریڑھ کی ہڈی میں کیڑے رینگنے کے احساس سے جان چھڑائے۔ وہ سوچنے لگا۔”مسرور خاندان کے گھر میں بہت سارے کمرے ہونے چاہئیں۔ ایک سٹورہے جس میں گوبھی جیسی چیزیں رکھی جاتی ہیں۔ مالک کا مطالعہ کا کمرہ الگ ہے۔ اس کی دیواروں پر کتابوں کے شیلف لگے ہیں اور ظاہر ہے وہاں گوبھی نہ ہوگی۔ شیلف چینی اور غیر ملکی کتابوں سے بھرے ہوئے ہیں جن میں یقینا ”ایک مثالی شوہر“ نامی کتاب موجود ہوگی۔ اس کی دو کاپیاں۔ ایک علیحدہ بیڈ روم ہے، پیتل کا ایک پلنگ ہے، یا ذرا سا سادہ جیسے کہ نمبر ایک جیل خانے کے قیدیوں کے بنائے ہوئے ہیں۔

”دیودار کے پلنگ۔ بستر کے نیچے بہت صفائی …………“۔  اس نے خود اپنی چارپائی کے نیچے جھانکا۔ جلنے والی لکڑی ساری ختم ہوچکی ہے، اور وہاں محض ایک رسی پڑی تھی، سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی رسی۔

”ساڑھے تئیس سیر …………“۔ اُسے محسوس ہوا کہ ان کے بستر کے نیچے جلانے والی لکڑی بڑی مقدار میں آئے گی۔ اس کے سرمیں پھر درد ہوا۔ وہ اٹھا اور دروازہ بند کرنے کے لیے تیزی سے وہاں گیا۔ مگر اس نے دروازے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ اس نے محسوس کیا کہ یہ جلد بازی ہوگی۔ اس نے اُسے ایسا ہی رہنے دیا۔  اس نے دروازے کا پردہ گرادیا ۔ جو کہ گرد سے موٹا ہوگیا تھا۔

”………… چنانچہ مالک کا مطالعے کا کمرہ ہمیشہ بند رہتا ہے“۔ وہ واپس بیٹھ گیا اور سوچنے لگا ”جس کو بھی کام ہو وہ پہلے دروازہ کھٹکھٹائے گا، اور اجازت ملنے پر ہی اندر آئے گا۔ اب فرض کر لو مالک مطالعے کے کمرے میں بیٹھا ہے اور مالکن ادب پر گفتگو کرنے آتی ہے، تو وہ بھی دروازہ کھٹکھٹائے گی ………… اور کم از کم یہ بات تو یقینی ہے کہ وہ گو بھی ساتھ نہ لائے گی۔

”لیکن اگر مالک کے پاس ادب پر گفتگو کرنے کے لیے ٹائم نہ ہو تو کیا ہوگا؟“۔جب وہ باہر کھڑی  دروازہ آہستہ سے کھٹکھٹائے گی تو کیا وہ اسے نظر انداز کرے گا؟۔ شاید ایسا نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سب کچھ ”ایک مثالی شوہر“ میں درج ہو………… وہ  یقینا بہت اچھا ناول ہوگا۔ اگر مجھے اس مضمون کے پیسے ملے تو میں وہ کتاب خرید لوں گا!“۔

تھپڑ!

اس کی پشت اکڑ جاتی ہے، اس لیے کہ اُسے تجربے سے معلوم ہے کہ تھپڑ کی یہ آواز اس کی بیوی کے ہاتھ کی ہے جس نے اسے اُن کی تین سالہ بیٹی کے سر پر مارا ہوگا۔

”ایک مسرورخاندان میں …………“۔ اس نے سوچا، اس کی پشت ابھی تک اکڑی ہوئی تھی۔  وہ بچی کی سسکیاں سن سکتا تھا۔”ایک مسرور خاندان میں بچے دیر سے پیدا ہوں گے، دیر سے۔ یا شاید یہ بہتر ہوگا کہ بچے ہوں ہی نہیں۔ محض دو افراد کسی بھی بندھن کے بغیر  …………  اور یا شاید یہ بہتر ہو کہ ایک ہوٹل میں ٹھہرا جائے اور انہی کی دیکھ بحال میں  رہا جائے ………… ایک اکیلا آدمی بغیر کسی …………“۔ہچکیوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں، وہ اٹھا اور  پردے کے پاس یہ سوچتا ہوا چلا گیا ”کارل مارکس نے ”داس کپٹل“ اُس وقت لکھا جب اُس کے بچے اس کے ارد گرد رو رہے ہوتے تھے۔ وہ واقعی عظیم آدمی تھا …………“۔  وہ باہر نکلا، بیرونی دروازہ کھولا اور پیرافین کی سخت بُو نے اس پر حملہ کردیا۔ بچی اوندھے منہ دروازے کے دائیں طرف لیٹی تھی۔ جونہی اُس نے اُسے دیکھا تو زور زور سے رونے لگی۔

”ارے نہیں بچے، مت رو۔ نہ رو۔ تم تو اچھی بچی ہو“۔ وہ اسے اٹھانے کے لیے جھکا۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی  دروازے کے بائیں طرف غصے سے بھری کھڑی ہے۔ اس کی کمر بھی اکڑی ہوئی تھی، دونوں ہاتھ کولہوں پر رکھے ہوئے تھے۔ لگتا تھا ورزش شروع کرنے والی ہو۔

”تم بھی مجھے ہی خوفزدہ کرتے ہو۔ کبھی مدد نہیں کرتے۔ تم صرف مشکلات پیدا کرتے ہو………… پیرافین لیمپ بھی گر گیا ہے۔ اب ہم شام کو کیا جلائیں گے؟“۔

”ارے، چپ ہوجا میری بیٹی!۔ بس چپ ہوجاؤ۔ سب ٹھیک ہوگا“۔ اپنی بیوی کی ہانپتی آواز کو نظر اندازکرتے ہوئے اس نے بچی کو اٹھایا اور کمرے کے اندر لے گیا۔ اس نے اس کا سر تھپتھپایا”میری اچھی بچی“ ۔ وہ دھراتارہا۔ پھر اس نے اسے نیچے رکھا ایک کرسی کھینچی اور بیٹھ گیا۔ بچی کو اپنے گھٹنوں کے درمیان رکھ کر اپنا ہاتھ بلند کیا۔ ”نہ رو، نہ رو میری اچھی بچی‘‘ اس نے کہا ”ابو تمہارے لیے بلی کی صفائی کا کھیل پیش کرے گا۔ بہ یک وقت اس نے اپنی گردن اونچی کی، دور سے دو دفعہ اپنی ہتھیلی چاٹی، پھر اُن کے ساتھ اپنے چہرے کی طرف دائرے بنائے۔

”آہا بلی!“ وہ ہنسنے لگی۔ اُس نے اور کئی دائرے بنائے اور پھر اُسے اپنی طرف مسکراتے دیکھ کر رک گیا۔ آنسو ابھی تک اس کی آنکھوں میں تھے۔ اُسے اچانک لگا کہ اس کا خوبصورت معصوم چہرہ پانچ سال قبل اس کی ماں کے چہرے کی طرح ہے، خصوصاً اس کے گہرے سرخ ہونٹ۔ وہ ایک دھوپ نکلا زمستانی دن تھا جب ماں نے اُس کے منہ سے ساری رکاوٹیں پار کرنے اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی  دینے کا فیصلہ سنا؛  وہ بھی اُس کی طرف اِسی طرح دیکھ رہی تھی، مسکراتے ہوئے، آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ۔ وہ غمزدہ ہوگیا، جیسے نشے میں ہو۔”آہ۔ پیارے ہونٹ“۔  اس نے سوچا دروازے کا پردہ اچانک پھر بند ہو اور جلنے والی لکڑی اندر لائی گئی۔

اچانک آپے میں آکر اس نے دیکھا کہ بچی، جس کی آنکھوں میں ابھی تک آنسو موجود تھے، اس کی طرف اُس کے سرخ ہونٹ کھلے ہوئے تھے۔ ”ہونٹ…………“۔  اس نے اُس طرف دیکھا جہاں سے جلانے کی لکڑی لائی جارہی تھی۔”………… شاید یہ کچھ نہ ہو بس پانچ پنجے پچیس، نو نمّے اکیاسی ہوں!………… پھر دوبارہ۔ اور دو سیاہ آنکھیں …………“۔ ایسا سوچتے ہوئے اس نے سبز لائنوں والا کاغذ جھپٹ لیا جس پرمضمون کی سرخی لکھی تھی اور ہندسے لکھے ہوئے تھے۔ اس نے اُسے مٹھی میں مروڑ لیا۔ اور پھر دوبارہ کھولا تا کہ بچی کی آنکھیں اور ناک صاف کرے۔ ”اچھی بچی، چلو دوڑو اور جا کر کھیلو“۔ اس نے یہ کہتے ہوئے اسے دھکیلا، بہ یک وقت گیند بناتے ہوئے کاغذ کو ردی کی ٹوکری میں اچھال دیا۔

مگر یک دم اسے بچی پر پیار آگیا، اور گردن موڑتے ہوئے اپنی مغموم آنکھوں سے باہر جاتے ہوئے اُس کا تعاقب کیا، جبکہ اس کے کانوں میں جلنے والی لکڑی کی آوازیں آرہی تھیں۔ غور کرنے پہ وہ مصمم انداز میں مڑا اور آنکھیں بند کرلیں تاکہ سارے، توجہ ہٹانے والے خیالات رک جائیں۔ وہ وہاں خاموش اور آرام سے بیٹھا رہا۔

اس نے اپنے سامنے ایک نارنگی مرکز والا گول بھورے رنگ کا پھول گزرتے دیکھا جو اس کی بائیں آنکھ کی بائیں جانب سے بالکل الٹی طرف تیرتا جاتا تھا  جہاں وہ غائب ہوا پھر گہرے سبز مرکزے والا ایک چمکیلا سبز پھول، اور آخر میں چھ گوبھیوں کا ایک انبار جو اُس کے سامنے ایک بڑا حرف Aبنا گئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے