جب انقلابی بالشویک دستوں نے سرمائی محل پر قبضہ کر لیا تو لینن نے بالآخر اطمینان کا سانس لیا۔ وہ ہمارے فوجی افسروں کی آہستہ روی سے بہت پریشان تھا۔ ان دنوں وہ رو پوشی کے سبب بھیس بدلے ہوئے تھا۔اس نے فوراً  ہی اپنے سادہ بہروپ کواتاردیا۔ وہ اپنے پرانے سیاسی دوستوں کے گھیرے میں مزدوروں اور سپاہیوں کے نمائندوں کی پٹرو گرو سوویت کے اجلاس میں نمودار ہوا جہاں لوگ انقلابی واقعات کے نتائج کے منتظر تھے۔

”گونجتی تالیوں“ کی بات کافی نہیں۔ نہیں، یہ تو اس سے بھی بڑی چیز تھی۔ جیسے ہی لینن سٹیج پر نمودار ہوا حقیقی معنوں میں بے پناہ انسانی جذبات کا ایک سیلاب ہال میں امڈ پڑا۔اجلاس کا آغاز ہوا۔ شاباش اور آفرین اور پرمسرت آوازیں بلند ہونے لگیں۔ جوش  و ہیجان کے اس طوفان میں یہ تاریخی اجلاس منعقد ہوا۔

شام کو جب بالآخر تمام معاملات پہ پر بحث مکمل ہوئی تومیں لینن کے ساتھ اپنے مکان کی طرف روزانہ ہوا۔ تاکہ ہم کچھ دیر کے لیے سستالیں۔ ہم نے تھوڑا بہت کھانا کھایا۔ اس کے بعد میں نے کوشش کی کہ لینن کے لیے ہر ممکن آرام مہیا کروں۔ کیونکہ اگر چہ وہ بہت پرجوش تھا لیکن ظاہر تھا کہ وہ بے حد تھکا ہوا تھا۔ میں اسے بڑی مشکل سے اس بات پر آمادہ کرسکا کہ وہ چھوٹے سے علیحدہ کمرے میں میرا بستر استعمال کرے جہاں ایک میز،قلم دوات اور کتابیں موجود تھیں۔

میں ساتھ والے کمرے میں ایک صوفے پر لیٹ گیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں اُسی وقت سوؤں گا جب مجھے یقین ہوجائے کہ لینن سو چکا ہے۔مزید حفاظتی تدابیر کے تحت میں نے اپنے مکان کا درروازہ مقفل کیا۔ تمام زنجیریں اور کنڈے چڑھادیے۔ اور پستول لوڈ کرلیا۔ کیونکہ میرے ذہن میں یہ خیال تھا کہ ہوسکتا ہے کہ دشمن اندر گھس آئے۔لینن کو گرفتار کر لے اور اسے مار ڈالے۔کیونکہ یہ ہمارے اقتدار کی پہلی رات ہے، لہذاکسی بھی چیز کی توقع کی جاسکتی ہے۔ مزید احتیاط کی خاطر میں نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کامریڈوں،سمولنی کی مزدور کمیٹی اور علاقائی مزدور کمیٹی اور ٹریڈیونینوں کے وہ تمام ٹیلی فون نمبر لکھے جو مجھے یاد تھے تاکہ اگر کوئی ہیجان انگیز واقعہ پیش آئے تو میں انہیں بھول نہ پاؤں۔

لینن اپنے کمرے کی بتی بجھا چکا تھا۔میں نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی لیکن مجھے ہلکی سی آواز بھی سنائی نہ دی۔ میں او نگھنے ہی لگا تھا کہ یکا یک اس کے کمرے کی بتی جل اٹھی۔ میں نے اس کے انتہائی آہستگی کے ساتھ اٹھنے کی آواز سنی۔ اس نے ہولے سے دروازہ کھولا اور اس بات کا اطمینان کیا کہ میں سویا ہوں۔حالانکہ میں سویا ہوا نہ تھا۔اس ڈر سے کہ کہیں کوئی اٹھ نہ جائے وہ پنجوں کے بل چلتے ہوئے میز تک آیااور وہاں بیٹھ کر اس نے دوات کھولی،میز پر کاغذ پھیلا ئے اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

اس نے لکھا۔ کاٹا۔ پڑھا۔ چند ٹوٹ لکھے پھر لکھا۔ اور بالآخر جب ہر چیز واضح ہوگئی تو اس نے اسے دوبارہ لکھنا شروع کیا اور جب پوپھٹ رہی تھی اور پٹروگراڈ کی خزاں کے افق پر صبح کی سفیدی نمودار ہورہی تھی تب لینن نے بتی بجھائی اور سو گیا۔

صبح کو گھر والے اٹھے تو میں نے انہیں خبر دار کیا کہ وہ خاموش رہیں۔ کیونکہ لینن نے ساری رات کام کیا تھا  اور وہ یقینا بے حد تھک گیا تھا۔ لیکن ہم سب کی توقعات کے برخلاف یکا یک وہ اپنے کمرے سے باہر آگیا۔ وہ پوری طرح تیار تھا اور توانا، تروتازہ، ہنس مکھ، مسر ور اور ہنسی مذاق کے موڈ میں نظر آرہاتھا۔

”سوشلسٹ انقلاب کا پہلا دن مبارک ہو“۔ اس نے ہمیں مبارکباد دی۔ اس کے چہرے پر تھکن کے کوئی آثار نہ تھے۔جیسے وہ رات بھر آرام کی نیند سو یا ہو۔ حالانکہ بیس گھنٹے زبردست کام کرنے کے بعد وہ زیادہ سے زیادہ  دویا تین گھنٹے سویا تھا۔ جب ہم سب چائے پینے کے لیے جمع ہوئے تو لینن نے اپنی جیب سے کاغذ کے چند صاف ستھرے ٹکڑے نکالے اور ہمیں اپنا مشہور ”فرمانِ زمین“ پڑھ کر سنایا۔

”ہمیں کرنا یہ ہے کہ اس فرمان کا اعلان کیا جائے اور پھر اسے وسیع پیمانے پر شائع کر کے تقسیم کیا جائے۔ پھر دیکھیں گے کہ کون اسے واپس کر سکتا ہے۔ روئے زمین پر کوئی طاقت ایسی نہیں جو کسانوں سے یہ فرمان چھین سکے۔ یہ ہمارے اکتوبر انقلاب کا ایک بہت ہی اہم حاصل ہے۔ زرعی انقلاب کو آج ہی مکمل اور مستحکم کیا جائے گا“۔

کسی نے اس رائے کا اظہار کیا کہ پھر بھی زمین کے متعلق ہر طرح کی بد نظمی موجود رہے گی اور زرعی علاقوں میں کشمکش جاری رہے گی۔ اس نے فوراً جواب دیا کہ یہ سب معمولی باتیں ہیں، ہر مسئلہ سلجھ جائے گا۔ بشرطیکہ کسان بنیادی اصولوں کو سمجھ جائیں اور ان سے تحریک حاصل کریں۔ اس نے بتانا شروع کیا کہ یہ فرمان خصوصی طور پر کسانوں کوقابل قبول ہوگا کیونکہ اس نے اس فرمان کی بنیادہی اس بات پر رکھی تھی کہ یہ تمام کسانوں کی کانگریس کے مطالبات کے مطابق ہے۔

”ہاں، مگر یہ وہ مطالبات تھے جو”سوشلسٹ انقلابیوں“نے پیش کئے تھے۔ پھر یہ کہا جائے گا کہ ہم نے یہ سب ”انہی سے مستعار لیا ہے“۔ کسی نے اپنا خیال پیش کیا۔

لینن یہ سن کر مسکرایا۔

”انہیں ایسا کہنے دیں۔ کسان واضح طور پر سمجھ جائیں گے کہ ہم ہمیشہ ان کے منصفانہ مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں کسانوں کے، ان کی زندگی کے،اور ان کی خواہشات کے قریب تر ہونا ہے اور اگر بعض سادہ لوح ہنستے ہیں تو انہیں ہنسنے دیں۔ ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا  تھا کہ ہم ”سوشلسٹ انقلابیوں“کو کسانوں پر اجارہ داری قائم کرنے دیں گے۔ ہم حکومت کی سب سے اہم جماعت ہیں اور پرولتاریہ کی آمریت کے بعد کسانوں کے مسئلے کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے“۔

طے ہوا کہ اس شام کانگریس میں اس فرمان کا اعلان کردیا جائے اور اسے فوراً ٹائپ کیا جائے تاکہ یہ دوسرے دن اخبارات میں شائع ہوسکے۔ لینن کا خیال تھا کہ اس فرمان کی بہت تشہیر ہو اور سارے اخبارات کے لیے ضروری قرار دیا جائے کہ وہ حکومت کے تمام اعلانات شائع کریں۔

یہ بھی فیصلہ ہوا کہ اس فرمان کو ایک علیحدہ کتابچے کی شکل میں کم از کم پچاس ہزار کی تعداد میں شائع کیا جائے اور پھر اسے سب سے پہلے اُن سپاہیوں میں تقسیم کیا جائے جو دیہی علاقوں میں اپنے وطن واپس ہورہے تھے کیونکہ ان کے ذریعے یہ فرمان دوسرے تمام ذرائع کے مقابلے میں زیادہ تیزی کے ساتھ عوام کے ہاتھوں میں پہنچ جائے گا۔اس منصوبے کو آئندہ چند دنوں میں انتہائی عمدگی کے ساتھ روبہ عمل لایا گیا۔

جلد ہی ہم سمولنی کی جانب پیدل روانہ ہوگئے اور پھر ایک ٹرام پر چڑھے۔ لینن سڑکوں پر ایک مثالی نظم و ضبط دیکھ کر خوشی سے مسکرا رہا تھا۔ وہ بڑی بے چینی سے شام کا انتظار کرتا رہا۔ جب سوویتوں کی دوسری کل روس کا نگریس میں امن فرمان کے منظور ہونے کے بعد اس نے فرمانِ زمین کو خصوصی طو رپر واضح انداز میں پڑھا اور اسے اتفاق رائے کے ساتھ زبردست جوش وخروش کے ساتھ منظور کرلیا گیا۔

جیسے ہی کانگریس نے اسے منظور کیاتو میں نے فورا ایک قاصد کے ذریعے اسے پٹروگراڈ کے تمام اخبارات کو اور ڈاک اور تار کے ذریعے دوسرے شہروں کو بھیج دیا۔ ہمارے اخبارات فوراً ہی اسے اپنے صفحات پر تیار کرچکے تھے اور صبح کو ہزاروں بلکہ لاکھوں عوام نے اسے پڑھا۔ تمام محنت کش عوام نے اسے خوش آمدید کہا۔ تاہم سرمایہ دار، اور ان کے اخبارات اور رسائل اس پر پھنکارتے اور غراتے رہے۔ مگر اس وقت ان پر توجہ ہی کس نے دی؟۔ اُن کے اخبارات کے قارئین کی تعداد تیزی سے گھٹتی جارہی تھی۔

لینن فتح مند تھا۔

لینن نے کہا۔”صرف یہی چیز برس ہا برس تک ہماری تاریخ پر اپنے نقوش کو باقی رکھے گی“۔

انقلابی تخلیقی سرگرمی کے ایک عہد کا آغاز بڑی کامیابی کے ساتھ ہوا۔بہت عرصے تک لینن ان معلومات میں دلچسپی ظاہر کرتا رہا کہ اخبارات کے علاوہ اس فرمان کی کتنی کاپیاں سپاہیوں اور کسانوں میں تقسیم کی گئیں۔ یہ فرمان کئی بار کتابچوں کی شکل میں شائع کیا گیا اور اس کی بیشمار کاپیاں مفت روس کے چپے چپے میں بھیجی گئیں۔

فرمانِ زمین نے عوام میں واقعی مقبولیت حاصل کرلی اور ہمارے ملک میں شاید ہی کوئی اور قانون اس قدر بڑے پیمانے پر شائع ہوا ہو جتنا کہ زمین کا یہ قانون۔ یہ قانون  ہمارے نئے سوشلسٹ آئین کے بنیادی قوانین میں سے ایک تھا جس کے لیے لینن نے اس قدر توانائی صرف کی تھی۔ اور جس کو اُس نے اس قدر زبردست اہمیت دی تھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے