تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے
محبت اور اس کی سبھی نرم شاخیں
گزشتہ صدی سے بدن کی رگوں میں نمو پارہی ہیں
تمنا کی ترشی زباں سے حلق تک گھلی جارہی ہے
نظر اور حدِ نظر تک نظارے
کہیں بہتے جھرنے، کہیں ابر پارے
تیرے نام کی اس سنہری مہک سے چمکنے لگے ہیں
یہ بستی، جو دل ہے
یہاں بسنے والوں کی خوش رنگ آنکھیں
مجھے تک رہی ہیں
مَیں چھاؤں میں جن موسموں کی پلی ہوں
میں جن انگلیوں کو پکڑ کر چلی ہوں
وہ موسم میرے ساتھ بڑھنے لگے ہیں
میرے اندروں جو وفا پل رہی تھی
کہیں قطرہ قطرہ یہ پھر جل رہی ہے
مجھے اپنے حصے کی ان ساعتوں پر
گماں ہورہا ہے جو میں نے گزاریں،
وہ سب سرد سانسیں جنہوں نے مرے
گرد اپنی دعاؤں کے ہالے بنائے
وہی سرد سانسیں تپش بن کے پھر مجھ میں بہنے لگی ہیں
گزشتہ زمانے جو مجھ میں پڑے ہیں
محبت کے قصے جو مجھ سے جڑے ہیں
میں اپنی زبانی بتانے لگی ہوں
تیرے نرم ہاتھوں پہ سرگوشی کر کے
میں پچھلی کہانی سنانے لگی ہوں!۔
اب میرا انتظار کر
میں جھلملاتی کسی کہکشاں سے اتری ہوئی
نہ جانے کونسی دنیا میں آن بیٹھی ہوں
یہ راستے تری موجودگی کی خاک لیے
مرے وجود کے اُس دشت سے گزرتے ہیں
تو وقتِ فجر جہاں مجھ پہ آ کے برسا تھا
میں اوس اوس کہیں ڈالیوں پہ اتری تھی،
تو رنگ رنگ کبھی بادلوں پہ دِکھتا تھا
یوں خواب خواب کسی تشنگی کو سہتے ہوئے
یہ کیا ہوا کہ میرے ہونٹ ہی جھلس گئے ہیں
میں تیری دید کی کن حسرتوں سے گزری ہوں
کہ میری آنکھ بھی پتھرا گئی ہے اور دل بھی!۔
میں اپنی زیست کے اس بے کراں سمندر میں
نہ جانے کتنی دفعہ ڈوب کر ابھر آئی
مگر یہ کیا کہ مجھے ڈوبنا ابھرنا اب
فضول وقت گزاری کا کام لگتا ہے
یقین کر میں ہراساں ہوں یہ بتانے سے
کہ تیری یاد کی وحشت زدہ صداؤں نے
عجیب طرح کی آسودگی عطا کی ہے!۔
میں جانتی ہوں کہ تو خود پلٹنا چاہتا ہے
مگر میں سوچ رہی ہوں کہ تیرے آنے پر
جھلستے ہونٹ تیرے ہاتھ کیسے چومیں گے؟
تری نظر کی چمک سے بھی جو جلیں گے نہیں
وہ دل اور آنکھ محبت کے لوٹ آنے پر
خوشی کے نِیر بھلا کس طرح بہائیں گے!!۔
ماہنامہ سنگت کوئٹہ