بلوچی  لوک کہانیوں کے بغور مطالعے سے بلوچ نفسیات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ہم اس سلسلے میں لوک کہانیوں کا سہارا لیتے ہیں جو اپنے عہد میں مختلف اداروں اور سماجی (institutions کو برتنے کا نہ صرف طریقہ بتاتے ہیں بلکہ ان کے بارے میں ایک عوامی تنقید اور مسلمہ رائے کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ ہم یہاں لانگ ورتھ ڈیمز کے collectionبنام بلوچی گیدی قصہ سے ایک کہانی بطور مثال نقل کرتے ہیں۔ جو مذہبی اداروں کے بارے میں اس وقت کے بلوچ معاشرے کی عمومی رائے  کا درجہ رکھتی ہے۔ بلوچوں کو مذہب سے  بے پناہ محبت اور مذہبی اداروں کے بارے میں تحفظات ہیں۔

بے ایمانیں مُلا۔

(سچائیں زمانگ آں یک شہرے آ مسیت ئے ملاوتی واعظ و تقریراں پہ باز نام داراث۔)

کہانی کا اردو ترجمہ ذیل میں ملاحظہ ہو۔

اچھے وقتوں کی بات ہے کہ ایک آبادی میں ایک مُلا صاحب رہتے تھے۔ وہ اپنی واعظ و نصیحت کے حوالے سے بہت مشہور تھا۔ لوگ دور دور سے ان کے پاس علم حاصل کرنے آتے تھے۔ لوگ اپنی قیمتی اشیا، اور نقد رقم بطور امانت اُن کے پاس رکھتے تھے۔ اپنے پیچیدہ مسائل کا حل بھی اسی مُلا صاحب سے پوچھتے تھے۔ یہاں تک کہ لوگوں کے معمولی گھریلو معاملات سے لے کر بڑے بڑے قبائلی معاملات تک سبھی کو مولوی صاحب نہایت سلیقے سے سُلجھادیتے تھے۔

خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ایک دن ایک اجنبی تاجر کا اسی آبادی سے گزرا ہوا، وہ مسافر بیمار بھی تھا۔ اس کے پاس بہت ساری رقم بھی تھی۔ ایک طرف تو اسے اپنی دولت کی فکر کھائے جارہی تھی تو دوسری جانب بیماری نے پریشان کر رکھا تھا، اسی مایوسی کی حالت میں اس نے گاؤں  والوں سے پوچھا کہ اس قصبے میں کون دیا نتدار آدمی ہے مُجھے اپنی رقم اس کے پاس امانت کے طور رکھنی ہے۔ لوگوں نے اسے مولوی صاحب کا گھر دکھادیا۔ بیمار مسافر مولوی صاحب کے پاس پہنچا اور سلام دعا اور حال احوال کے بعد عرض کیا۔

”مولوی صاحب! میں فلاں علاقے کا باشندہ ہوں تجارت کے غرض سے آپ کے ملک میں آیا اور سامانِ تجارت فروخت کرنے بعد واپس اپنے وطن جارہا ہوں۔ دو دن سے شدید بخار میں مبتلا ہوں۔ اس حالت میں سفر کرنے کے قابل بھی نہیں ہوں۔ میرے پاس بہت سارا نقد رقم ہے۔ آپ کی مہمان داری اور دیانتداری کا بہت شہرہ سنا ہے۔ آپ مہربانی فرما کر یہ رقم اپنے پاس رکھیں  اور مجھے بھی صحت یابی تک اپنا مہمان بنالیں، میں مسجد کے ساتھ والے ہُجرے میں جو گاؤں والوں نے مسافروں اور مہمانوں کے لیے بنایا ہے پڑا رہوں گا۔

میری علاج اور مہمانداری پر جو بھی خرچہ آتا ہے آپ اس رقم سے رکھ لیں۔ اور ہاں اگر قضائے الہی سے میں مر جاؤں تو میری رقم میری بیوہ  اور بچے تک پہنچادیں“۔

مولوی صاحب نے پہلے تو اس رقم کی طرف بھوکے بھیڑیے کی طرح دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر کہا۔

”دیکھو بھائی یہ کام تو ہے بڑی ذمہ داری کی، میں ٹہرا ایک کمزور انسان۔ ایسا نہ ہو مُجھ سے تمہاری تیمارداری اور مہمانداری میں کوئی کمی رہ جائے اور قیامت کے دن مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے۔ ہاں ایک بات ہے کہ تم اپنی رقم اپنے پاس رکھو اور ہجرے میں قیام کرو۔ مجھ سے جو ممکن ہوگا تمہاری خدمت کروں گا۔ اللہ آپ کو شفا عطا کرے گا۔ نا امید ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے“۔

”مولوی صاحب مجھے زیادہ فکر اپنے رقم کی ہے۔ یہی جمع پونجی میرے بچوں کا سہارا ہے۔ اور کچھ قرض بھی چکانی ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ میری رقم سنبھال کر رکھیں اور مجھے اپنے پاس مہمان ٹھہرالیں“۔

مولوی صاحب نے اپنی زندگی میں اتنی بڑی رقم یک مشت کبھی نہیں دیکھی تھی اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ اس بے وطن مسافر کا یہاں کون ہے اورنہ ہی علاقے کے لوگ اسے جانتے ہیں اور بیمار تو ویسے بھی ہے کیوں نا اس کا خاتمہ کر کے رقم ہتھیالی جائے۔

الغرض مولوی صاحب نے مسافر کو اپنے پاس مہمان ٹھہرایا اور رقم سنبھال کر رکھ لی۔ دوسرے دن کہیں سے زہر لا کر اس کے کھانے میں ملا دیا اور صبح لوگوں نے مسافر کو مہمان خانے میں مردہ پایا۔ لوگوں نے اس کے تجہیز و تدفین کا انتظام کیا اور جب لاش اٹھانے کا وقت آیا تو کوششِ بسیار کے باوجود بھی لاش اٹھائی نہیں جارہی تھی۔ الغرض مولوی صاحب کو بلایا گیا اور زیرِ لب کچھ پڑھتے ہوئے مولوی صاحب نے جو نہی لاش کے تابوت کو ہاتھ لگایا تو وہ آسانی سے اُٹھ گیا اس جب لحد میں اتارنے کا وقت آیا تو لاش کی وزن کئی گناہ بڑھ گئی اور اٹھائی نہیں جارہی تھی پھر مولوی صاحب کو بلایا گیا اب کے مولوی صاحب کو خود قبر میں اتر کر لاش لحد میں اتارنی تھی۔ جونہی مولانا صاحب نیچے جھکے، قبر کے اندر سے ایک فولادی زنجیر ان کے گلے میں آکر پھنس گئی۔لاش واپس نکال لی گئی اور دوسری جگہ دفنائی گئی لیکن مولوی صاحب وہیں پھنسے رہے۔ کسی سیانے شخص نے مشورہ دیا کہ مولوی صاحب اگر اپنے کسی گناہ کا جو انہوں نے تازہ تازہ کیا ہو، اعتراف کر کے توبہ کر لو تو شاید اس عذاب سے نجات ملے۔الغرض مولانا صاحب نے وہی کیا اور لوگوں کو بتادیا کہ مسافر کا قتل اسی نے کیا ہے اور اس کی رقم اس نے ہتھیالی ہے۔ لوگوں نے مولوی صاحب پر لعنت کے پتھر  پھینکے اور یوں اس پھکنڈی کا پول سب کے سامنے کھل گیا، جو کل تک اپنے تئیں بڑا پار سا بن رہا تھا۔“ ڈیمز بلوچی لوک کہانیاں۔

فارسی کی اس مشہور کہاوت کا بھی بلوچوں میں واضح تصور موجود ہے۔

کہ ”پیراں نمے پرند، مریداں پرید اند“

پیر نہیں اڑتے بلکہ مرید انہیں اڑاتے ہیں۔

بلوچوں میں مظاہر پرستی یا خوف کی پوچا۔

یوں تو معلوم تاریخ اور دستیاب ”شاعری“ جو واحد ذریعہ ہے جس کی مدد سے بلوچوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جاسکتی ہے۔ اس میں ہمیں بلوچ راج میں کبھی بھی اشجار پرستی یا ستارہ پرستی کی آثار نہیں ملے۔ تاہم بعض چیزوں میں اقوامِ عالم سے مختلف متھ لیے گئے۔ مثلاً ہم ذیل میں بیل گائے اور سانپ سے متعلق کہانیوں پر غور کریں گے۔

بیل اور گائے کا بلوچMythologyمیں مقام

بلوچوں میں بیل اور گائے نہایت اہمیت کے حامل جانور تصور کیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بیل کا کاندھے جہاں جُولا کے نشان بھی ہوتے ہیں ان مقامات کو مقدس زیارت کے بطور چوما جاتا ہے  بیلوں کے جوڑی کو گھر کے افراد سے زیادہ اہم تصورکیا جاتا تھا کیونکہ زرعی مشینری کی دریافت سے پہلے یہی بیل رزق کمانے کا واحد ذریعہ تھا۔ سانڈ اور بیل اور دیگر بہت سے اساطیری جانوروں کو لاشعور کی علامت قرار دیا جاتا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان جانوروں کا تعلق مادرسری نظام کے عہد سے ہے۔

یوں تو گائے اور بیل کا شکار ابتدائی ہجری دور میں بھی کیا جاتاتھا۔ الیسکا، فرانس اور دنیا کے کئی اور مقامات پر غاروں میں سحرزدہ اور زخمی بیلوں کی بہ کثرت رنگین تصویریں ملتی ہیں جو غاروں کی دیواروں پر بنی ہوئی ہیں۔ موسیٰ خیل کوہِ سلیمان میں بھی قدیم غاروں پر اس قسم کی تصویریں ملی ہیں۔یہ تصاویر ایک اندازے کے مطابق پندرہ سے پچاس ہزار سال پرانی ہیں۔ مگر اس زمانے میں ان جانوروں کی حیثیت شکار کے دوسرے جانوروں کی سی تھی۔ ان سحرزدہ جانوروں کے تصویری نقوش ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کا تعلق ابتدائی شکار کرو اور جمع کرو”HUNTING AND GETHERING SOCIETY“ سے ہے۔ یہاں ماہرین کو اس بات پر بھی کامل یقین ہے کہ اسی دور میں انسان نے سحر، جادو اور ٹونے ٹوٹکے کرنے کا فن سیکھا اور پہلا مصور ہی پہلا ساحر تھا۔ انسانی ارتقا پر یقین رکھنے والے ماہرین یہ بھی یقین سے کہتے ہیں کہ ان تصاویر کے مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ شکار کرنے کے دشوار گزار مراحل کبھی کبھی انسان خود بھی جنگلی جانوروں کے شکار ہوجاتے تھے۔ یا پھر پہاڑوں اور جنگلوں میں آدم خور بھیڑیوں سے لڑتے لڑتے خود شکاری ان کا شکار بن جاتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ابھی انسان نے صرف لکڑی کے ڈانگ اور پتھر کے نوکدار ٹکڑوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنا سیکھا ایسے میں شکار پر جانا اور مشکلات جھیلنا جان جوکھوں کا کام تھا ایسے میں پہلی بار سہل پسند اور عقلمند انسان نے پہلی بار جادو اور ٹونے ٹوٹکے سے کام لیا ہوگا۔                        اس دانا و بینا شخص نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو یہ کہہ کر قائل کیا ہوگا کہ اس کے پاس ایک ایسی علم ہے کہ جس پر عمل کرنے سے وہ انہیں شکار میں نمایاں کامیابیاں دلواسکتا ہے۔ یوں ایک طرف تو اس علم کی طاقت کو ساتھ لیے شکار پر جانے والے زیادہ حوصلہ اور ہمت سے شکار پر حملہ آور ہوتے تھے اور دوسری طرف اتفاق سے انہیں بیل گائے اور بھینسہ وغیرہ کا شکار بھی زیادہ ملنے لگا۔۔۔ الغرض جن تصاویر میں بیل، گائے اوربھینسہ وغیرہ تیروں سے زخمی اور سحرزدہ حالت میں دکھائے گئے ہیں وہ دراصل اس دور کے سہل پسند اور دانا انسان کی پہلی کاوش ہے جس کے ذریعے آج تک کا لا علم کی نام پر سفید جھوٹ کی صورت میں ہمارے سامنے دوسروں کے خدمات حاصل کیے جارہے ہیں۔ اور اگر نا کامی ہوتی تو بھی ذمہ دار شکاری گروہ کو ٹھہرایا جاتا انہوں نے عمل کرنے میں ضرور کوئی غلطی کی ہوگی۔

سبطِ حسن اپنی کتاب ماضی کے مزار میں لکھتے ہیں۔

”اس دور تک کسی بھی جانور کو دیو مالائی اہمیت حاصل نہ تھی۔ البتہ جب کھیتی باڑی کی ابتداء ہوئی، گائے بیل کی افادی پہلو دوسرے جانوروں سے زیادہ ہوگیا، بیل کا تصور فصلوں کی فراوانی اور زمین کی زرخیزی سے وابستہ ہوگیا اور بیل کو ہلاک کرنا اس کی قربانی دینا زمین کے اُپجاؤپن کو بڑھانے اور اناج کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لیے ضروری ٹھہرا۔ مثلاً جزیرہ کریٹ کے لوگ دو سال میں ایک بار ایک تہوار مناتے تھے اور اس موقع پر ایک زندہ بیل کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا جاتے تھے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ سبزی اور انگوری شراب کے دیوتا DIONYSUS کو دشمنوں نے اس وقت قتل کیا تھا جب وہ بیل کے روپ اختیار کیے ہوئے تھے  مشرقی جرمنی میں جب فصلیں ہوا میں لہراتی تھیں تو کہتے تھے کہ بیل کھیت میں گزر رہا ہے۔ زمین کے کسی حصے میں اگر فصل اچھی ہوتی تھی تو کہتے تھے ”یہاں بیل لیٹا ہوا ہو“ اگر فصل کاٹنے والے کو چوٹ لگ جاتی تو لورین کے لوگ کہتے تھے اس کو بیل نے مارا ہے۔

فصل کی کٹائی کے بعد بیل کی قربانی عام تھی۔ یونان میں جون کے آخری دنوں یا جولائی کے شروع ایام میں جب اناج کھلیانوں سے گھروں میں پہنچ جاتا تھا تو بیل کی قربانی کرتے تھے۔ اس تہوار کو یونانی زبان میں بوفونیا (بیل کو قتل کرنے کا تہوار) کہتے تھے۔ اس موقع پر جویا گندم کا گُندھا ہوا آٹا خدا وند زیوس کے معبد کی قربان گاہ پر رکھ دیا جاتا تھا اور بہت سے بیل قربان گاہ کے گرد ہنکائے جاتے تھے۔ جو بیل آٹا کھا لیتا اس کو پکڑ کر قربان کر دیا جاتا تھا۔ اسی طرح گنی کے جزیروں میں ہر سال دو بیلوں کی قربانی دی جاتی ہے۔ تاکہ فصل اچھی ہو۔ چین کے ہر صوبے اور ضلع میں موسمِ بہار کی آمد پر قربانی کا تہوار منایا جاتا تھا۔ اس موقع پر بیل کا مٹی یا کاغذ کا بہت بڑا پُتلا بنایا جاتا تھا اور اس کے پیٹ میں پانچ قسم کا اناج بھر دیا جاتا تھا۔ پھر اس پتلے کو جلا دیتے تھے یا مار کر توڑ دیتے تھے اور اس بے بعد ایک زندہ بیل کی قربانی کی جاتی تھی۔

قدیم ایرانی مذہب میں تھر اس دیوتا کے معبد میں بیل کی قربانی فصلوں کی فراوانی کی علامت تھی۔ چنانچہ ایسے مُجسمے بہ کثرت دستیاب ہوئے ہیں جن میں دیوتا تھر اس بیل کی پیٹ پر جھکا ہوا اس کی پسلی میں چھرا گھونپ رہا ہے۔ اور اس کے پیٹ سے خون کے بجائے اناج کی بالیاں نکل رہی ہیں۔

جزیرہ کریٹ کے دیو مالائی کہانیوں میں بیل کو بہت اہمیت حاصل ہے وہاں ہر سال بیل کی قربانی کا تہوار بڑی شان سے منایا جاتا ہے۔ وہاں کے بادشاہ میتونس نے ایک بار لالچ میں آکر سب سے عمدہ بیل کو قربان کرنے کے بجائے اپنے مویشی خانے میں بھیج دیا اور دیوتا کو ایک معمولی درجے کے بیل کی قربانی دے کر ٹال دیا۔ بہر حال دیوتا آخر دیوتا تھا اس نے بادشاہ کو یہ سزا دی کہ اس کی بیوی اس خوبصورت بیل پر عاشق ہو گی اور پھر ملکہ کے پیٹ سے ایک ایسا جانور پیدا ہوا جس کا آدھا دھڑ انسان کا تھا اور آدھا بیل کا۔یہ بیل آدم خور تھا اور ہر سال سات جوان مرد اور  سات جوان عورتیں اس کی خوراک بنتے تھے۔ پھر یونانی ہیرو THOSEUSنے اسے بلاک کردیا۔

الغرض گائے یا بیل کا زراعت اور افزائش سے تعلق ہر جگہ مسلم ہے۔ چنانچہ فرعون (عزیزِ مصر) بھی اپنے خواب میں سات موٹی گائیں اور پھر سات دُبلی گائیں دیکھتا ہے۔ اور حضرت یوسف علیہ سلام اس خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

”مصر میں سات سال تک نہایت خوشحالی ہوگی اور فصلیں بہت اچھی ہونگی اور پھر سات سال تک تباہ کن قحط پڑے گی اور لاتعداد لوگ بھوک سے مریں گے“

یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ گل گامش کی داستان میں بھی جب عشتار دیوی اپنے باپ اُنو کو مجبور کرتی ہے کہ وہ نورِ فلک بنائے تو انو ایک بڑی معنی خیز بات کرتی ہے۔

”اگر میں نے تیری خواہش پوری کردی تو دنیا میں سات سال تک قحط رہے گااور اناج کے دانے کھو کھلے ہوجائیں گے۔

کیا تو نے لوگوں کے لیے کافی اناج فراہم کر لیا ہے  اور جانوروں کے لیے چارے کا بندوبست ہوگیا ہے؟؟

اور عشتا دیوی جواب میں کہتی ہے کہ ہاں میں نے اناج اور چارے کا انتظام کر لیا ہے۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیل کا رشتہ زراعت سے بہت گہرا اور قدیم ہے۔ اور بیل کی قربانی شروع ہی سے مذہبی فریضہ میں شامل تھا۔ چنانچہ گل گامش نے بیل کی یا کسی اور بڑی جانور کی قربانی کی ہوگی جس نے شاعر کے تخیل میں باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر لی یا پھر سو میر میں تہوار کے مو قع پر بیل سے باقاعدہ لڑ کر بلاک کرنے کا رسم تھی، جیسے اسپین میں سانڈ اور انسان کی لڑائی کرائی جاتی ہے۔

مشرقی بلوچستان کے زرخیز علاقے جہاں کھیتی باڑی کو مالداری پر فوقیت حاصل ہے وہاں کے لوگ داستانوں میں یہاں تک کہ شاعری میں بھی بیل کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے۔

”منی ڈاند(بیل)  لوغا لنگھڑی ءَ بستغاں“

ترجمہ: میرے محبوب تیری وصل کی ایک گھڑی کے لیے کہاں سر گرواں نہیں رہتا ہوں؟ یہاں تک کہ مجھے اپنے مقدس بیلوں کا خیال تک نہیں رہتا جن سے میرے بچوں کا رزق بلکہ زندگی وابسطہ ہے جو اپنی بے پناہ قوت سے ہل کھینچ کر ہم سب کے لیے اناج پیدا کرتے ہیں اور اب کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی  ہے کہ وہ بھی بھوکے پیاسے تھان پر بندھے ہوئے ہیں۔

بلوچوں میں منت (منوتی) مانتے وقت بھی سب سے زیادہ بیل کی قربانی کا ذکر آتا ہے۔ ردِ بلا کے لیے بھی کالے رنگ کا بیل قربان کرنے کا ذکر ہے۔ ایک جنگ کے بعد مخالف فریق جب جانی نقصان سے بچ جاتا ہے تو اس کو نصیحت کی جاتی ہے کہ جاکر بھورے رنگ کا بیل ذبح کرے۔

بریث قرباں شاکھنے بھورائے۔۔۔ کہ دانی لیکھو اپورائے۔

ملک محمد رمضان کوہ سلیمان)

یا پھر نہایت ہی مشکل اور کھٹن ساعتوں پیر سائیں کے کومدد کے لیے بلاتے وقت جو منت مانی کی جاتی ہے اس میں بھی بیلوں کا ذکر نمایاں ہے جب کہ سندھ کے بلوچوں میں کالے رنگ کا بکرا قربان کرنے کا عقیدہ عام ہے کہ اس سے بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ سابقہ صدر آصف علی زرداری جو سندھ کے بلوچ ہیں جب تک ایوانِ صدر میں تھے تو ملٹری کُو سے بچنے کے لیے روز ایک بکرا ذبح کر کے خیرات کرتے تھے۔

دوسری جانب بلوچی لوک داستانوں میں بیل کی بے پناہ قوت کا ذکر ملتا ہے۔ اس دیومالائی قوت کے حامل جانور کے بابت بلوچوں میں یہ مِتھ بھی مشہور ہے کہ بیل اتنا طاقتور جانور ہے کہ اس نے زمین کو ایک سینگ پر اٹھا رکھا ہے اور جب جب زلزلے آتے ہیں تب تب بیل زمین کو دوسرے سینگ پر لے جاتا ہے۔ بلوچ کا شتکاروں اور زمینداروں میں بیل کو نہایت مقدس مقام حاصل ہے۔ یہاں تک کہ پورا گھرانا بھوکا رہ سکتا ہے لیکن بیلوں کی جوڑی کے لیے ہر حال میں چارے کا انتظام کی جاتی ہے۔

بیلوں کو کاشت کاری اور ہل چلانے کے لیے جوتنے سے قبل باقاعدہ عقیدت کے طور پر ان کے آگے ہاتھ جوڑے جاتے ہیں اور ان کے کاندھوں کو ہاتھ لگا لگا کر چوما جاتا ہے۔ بیلوں کے گوبر اور پشاب کو حرام تصور نہیں کیا جاتا۔ یہی معاملہ گائے کا ہے گائے کی افادیت کونہایت اہم سمجھا گیا ہے۔ جس میں ماں کی طرح دودھ دینا اور زمین کا سینہ چیرنے کے بچھڑے پیدا کرنا شامل ہے“۔ (محقق)

بلوچوں میں ان دونوں جانوروں کی قربانی اب بھی اسی  انداز میں دی جاتی ہے جیسے قدیم ایران کے باسی فصلوں کی کٹائی یا پھر قدرتی آفات، طوفانی بارشیں، ژالہ باری، قحط وہائی امراض وغیرہ سے بچنے کے لیے سب سے صحت مند بیل کی قربانی دیتے تھے۔

مشرقی بلوچستان کے اکثر بلوچ قبیلوں میں ہر فصل کا مخصوص حصہ جو پیر کا بُہل کہلاتا ہے، ایک جگہ جمع کی جاتی ہے جس میں مجاور کو اس کا حصہ دینے کے بعد باقی آمدنی سے چند بیل خریدے جاتے ہیں اور انہیں پیر کے دربار میں ذبح کر کے قربانی دی جاتی ہے۔ بیل کو ذبح کرنے سے پہلے آٹا ملا پانی اور پھر پورا خوراک دی جاتی ہے جو غالب امکان ہے کہ یونانیوں کے زیوس دیوتا کی معبد میں رکھے جانے والے گُندھے ہوئے آٹے کی یادگار ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے