سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ علمی و ادبی نشست اپنے معمول کے مطابق اتوار 6جون2021ء کی صبح گیارہ بجے پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں منعقد ہوئی۔ نشست کی صدارت سنگت اکیڈمی کے مرکزی جنرل سیکرٹری پروفیسر جاوید اختر نے کی۔ اعزازی مہمان ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو تھے اور نظامت کے فرائض سیکرٹری پوہ و زانت نجیب سائر نے ادا کیے۔

۔1935ء کے ہولناک زلزلے نے جہاں کوئٹہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا وہیں اس نے ہم سے بہت سی قد آور شخصیات چھین لیں جن میں سے میر یوسف عزیز مگسی ایک تھے۔ان کا یوں چلے جانا بلوچستان کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصا ن تھا۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو نے اپنے مقالے میں یوسف عزیز کا ذکر کیا۔انہوں نے کہا کہ میر یوسف عزیز کو برصغیر کے سیاسی  حالات کا ادراک تھالہٰذا وہ بہادری کے ساتھ سالار بن کر میدان میں اترے۔اخبارات میں مضامین لکھتے رہے۔ سخت قبائلی دور میں ابتدائی سیاست کی بنیاد رکھ کر جدوجہد کی راہیں ہموار کیں۔ان کی تعلیم کو سر عام کرنے کی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ان کو عظیم انسان ملے جیسے عبدالعزیز کرد، محمد حسین عنقا، ملک فیض محمدیوسفزئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوسف عزیز مگسی 27سال کی عمر میں نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں بلکہ بلوچوں کی تحریک اور جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔ ترقی پسندانہ خیالات کے مالک، کٹھن سرداری و نوابی اور جاگیرداری دور میں جس طرح وہ لیڈکررہے تھے یقینا آگے چل کر مزید ابھر کر سیاسی دائرے میں شامل ہوکر حقوق کی جنگ میں نمایاں ہی رہتے لیکن وقت بھی ظالم ہے،’مادرِ وطن کا بہترین فرزند‘ زلزلے کی نذر ہوگئے۔

ان کے مقالے کے بعد سوال ہوا کہ وہ کون سے حالات تھے جن نے عزیز مگسی متاثر ہوئے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا کہ انقلاب کی طرف آنا ہم سب کی جینز میں شامل ہے، یہ ایک قدرتی بات ہے۔ دوسرا اہم نکتہ ہے ٹیچرز کا اور مگسی کے استاد تھے میر عبدالعزیز کرد۔ جیل کی سلاخوں نے عزیز مگسی کو ایجوکیٹ کیا۔ وہ تنظیم جو انڈرگراؤنڈ تھی، ابھر کے سامنے آئی۔

ڈاکٹر منیر رئیسانی نے عابدہ رحمان کے افسانوں کے مجموعہ’جو کہاافسانہ تھا‘ پہ اپنا مضمون پڑھا۔انہوں نے کہا کہ عابدہ رحمان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ افسانوں کے عنوانات بہت معنی خیز، تیکھے اور خوبصورت رکھتی ہیں۔ بھوک، بے روزگاری، ظلم و ستم، سماجی نابرابری، بے انصافی، جبر، گھٹن، صنفی امتیازاور اس طرح کے دیگر موضوعات ان کے قلم کو اپنی طرف متوجہ رکھتے ہیں۔ماہیِ بے آ ب،کانچ کی گڑیا،سفر کی دھو ل،امر بیل، رش کے قطرے،ماہیکان غرض ہر افسانہ بھرپور ہے۔مصنفہ کے افسانے سیدھے سادھے،عام روز مرہ الفاظ میں لکھے ہوئے بیانیہ افسانے ہیں۔

ان کے بعد بلوچستان یونیورسٹی سے آئے مہمان ڈاکٹر جہانزیب بلوچ نے تاریخ نویسی پہ لیکچر دیا۔ تاریخ کے مختلف پہلوؤں پہ بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مغرب کو من و عن قبول کر لیا۔ جو اس نے ہمیں ہمارے بارے میں بتایا، لکھا یایا پڑھایا اس کو پرکھے بغیر ہم نے اپنا حصہ بنایا۔انگریز علم پھیلانے نہیں بلکہ حکومت کرنے آیا تھا۔ ایک انگریز جوبختیار آباد سے آگے تک نہیں گیا وہ کیسے ہماری تاریخ لکھ سکتا ہے۔ ایک اور جس نے کبھی جنوبی ایشیا میں نوکری کی ہی نہیں اس کی بات کو ہم نے کیسے سچ مان لیا۔تاریخ دو طرح کی ہے، ایک وہ جس میں ہم واقعات بیان کرتے ہیں جو کہ بہت آسان ہے کہ فلاں کب آیا کب گیااور اس کے بعد کون آیا وغیرہ لیکن تاریخ کے دوسرے رخ پہ ہم نے کبھی بات نہیں کی وہ ہے کہ آج ہم جہاں کھڑے ہیں وہاں کیوں کھڑے ہیں۔ ایک اخبار اگر جیکب آباد اور لاہور سے نکل سکتا ہے تو وہ بلوچستان سے کیوں نہیں، یا یوں کہیں کہ جناح اور گاندھی کچھ کرر ہے تھے تو بلوچستان کے لیڈرز کہاں تھے۔ ہمیں کون سی تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ یہ ہے وہ تاریخ جس کا ذکر نہیں کیاجاتا، یہ تاریخ کا مشکل پہلو ہے جس پہ بات نہیں کی جاتی۔ڈاکٹر جہانزیب نے بلوچستان کی ابتدائی تاریخ پہ بھی بات کی۔ مائیگریشن تھیوری کا ذکر کیا۔ انتھروپولوجی، لنگوسٹکس اور آرکیالوجی پہ روشنی ڈالی۔ان کا کہنا تھا کہ کیا اچھا ہواگر ہم فیکٹ اور ایویڈنسز کی بنیاد پر تاریخ کا جائزہ لیں۔

لیکچر کے بعد ان سے مختلف سوالات کیے گئے۔

اُن کے بعد کلثوم بلوچ اور اکرم مینگل نے مندرجہ ذیل قراردادیں پیش کیں، جن کی منظوری متفقہ طور پر دی گئی۔

۔1۔آج کا پوہ و زانت اجلاس بلوچستان گرینڈ ایمپلائز الائنس کے مطالبات کی تکمیل کا مطالبہ کرتا ہے۔ حکومت نے اس سے جو وعدہ خلافی کی ہے، اسے تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کی قیادت کے خلاف تمام حکومتی اقدامات کی مذمت کرتا ہے۔

۔2۔حامد میر پر سچ کہنے کی پاداش میں ریاستی پابندیوں کی مذمت کرتا ہے اور اس کے اہل ِ خانہ کو پریشان کرنے پر سخت احتجاج کرتا ہے۔

۔3۔بائی پاس پر دھرنا دینے والوں کے ساتھ کامیاب مذاکرات کیے جائیں۔

۔ 4۔بلوچستان سے مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے موثر اقدام کا مطالبہ کرتا ہے۔

۔5۔ روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناسب سے رواں سال کے بجٹ میں سرکاری و غیر سرکاری ملازمین بشمول ِ پینشنرز کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ بجٹ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف ملے گا۔

۔6۔ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت فراہم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور جب تک وہ بے روزگار ہیں ان کے لیے بے روزگاری الاؤنس کی فراہمی کا مطالبہ کرتا ہے۔

۔7۔ بلوچستان کے عوام کے احساس ِ محرومی کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور بلوچستان کے سیاسی و معاشی مسائل کے حل کا مطالبہ کرتا ہے اور اس پر ہر قسم کی عسکری کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے۔

نشست کے آخر میں سنگت اکیڈمی کے مرکزی جنرل سیکرٹری پروفیسر جاوید اختر صدارتی کلمات ادا کیے۔انہوں نے سب سے پہلے ڈاکٹر جہانزب بلوچ کا شکریہ ادا کیا۔ کہا کہ آپ کے لیکچر سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ یوسف عزیز مگسی پہ پڑھا گیا مضمون بھرپور، بے ساختہ اور زور ِ قلم کا مظاہرہ ہے۔افسانوں پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ جو نہیں کہا، نہیں سنا، نہیں پڑھا، وہ کیا تھا۔ یہ نقاد کا کام ہے کہ کسی لکھاری کے کام کی تشریح کرنے کے بجائے بتائے کہ تحریر میں کیا ہے کہا نہیں۔مزید کہا کہ تاریخ نویسی کے کئی نظریات ہیں جن میں دو اہم ہیں آئیڈلسٹک اپروچ اور مٹیریلسٹک اپروچ۔ہمار ے تاریخ نویسوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ وہ آج بھی تاریخ کو انگریز کے لینز سے دیکھتے ہیں۔ عام آدمی کی تاریخ کا کسی نے خیال نہیں رکھا اگر کسی نے اسے یاد کیاتو وہ ہے فوک کلچر۔ اسی طرح بہت سی چیزیں تاریخ کا سورس ہیں جیسے شاعری۔ڈاکٹرشاہ محمد مری کی پیپلز ہسٹری آف بلوچستان میں تاریخ کو کامن مین کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔

مرکزی سیکریٹری جنرل کے صدارتی کلمات کے بعد نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے