میں لکھے گئے اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو ”قندیل مران انت یک یکاں“ کا عنوان دیا ہے جو عصر حاضر میں بلوچ اور بلوچستان کے صف اول کے شاعر مبارک قاضی کی ایک بلوچی غزل سے مستعار لیا گیا ہے جس کا ترجمہ ہے ”ایک ایک کر کے چراغ بجھ رہے ہیں“۔

کچھ ماہ قبل ایک بہت بڑی ہستی صحافی، دانشور، استاد اور انسانی حقوق کی تحریک کے روح رواں آئی  اے رحمان رحلت کر گئے تھے مجھ ناچیز کو خوش قسمتی سے برسوں تک مرحوم آئی اے رحمان صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا اس لیے اس کی موت پر ورح کی گہرائی سے تکلیف محسوس کیا تھا اور ابھی اس غم سے نجات کی راہیں ڈھونڈ رہے تھے کہ خبر آئی کہ کوئٹہ کراچی شاہراہ جو شاہراہ سے زیادہ انسانی خون پینے کے عادی قدیم افسانوی دیوتاوں کا روپ دھار چکے ہیں ٹریفک کے ایک المناک حادثے میں ہمارے نامی گرامی عالم و فاضل استاد اور منفرد شخصیت کے مالک پروفیسر کامریڈ غلام نبی بلوچ صاحب جان کی بازی ہار گئے تھے۔ کامریڈ غلام نبی بلوچ صاحب کا قبر میں پہنایا گیا کفن بھی میلا نہ ہو ا ہوگا کہ عزیز بگٹی صاحب کے انتقال کی بری خبر آئی۔عزیز بگٹی صاحب کے موت کی خبر کے بعد سے مبارک قاضی کی غزل کا یہ مصرعہ کانٹے کی چھبن کی طرح تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے اور یہ گماں تیزی سے یقین میں بدل رہی ہے کہ واقعی ”ایک ایک کرکے قندیلیں اور چراغ بجھ رہے ہیں“

مجھے عزیز بگٹی صاحب کی تخلیقات اور تاریخ نویسی سے واقف ہونے اور ان کی کتابیں پڑھنے کا موقع ڈیرہ بگٹی میں آج سے 18برس قبل مئی 2003کو ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ڈیرہ بگٹی میں شورش اور مزاحمت کی چنگاریوں سے دھواں پھوٹنے لگا تھا اور صرف جنگی شعلوں کی دیر تھی تو ہیومن رائٹس کمیشن بلوچستان چیپٹر نے ڈیرہ بگٹی کی مجموعی صورتحال کو سمجھنے اور شہید اکبر خان بگٹی اور دیگر فریقین کے موقف جاننے کے لیے ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم تشکیل دیا تھا جس میں اتفاق سے میں بھی شامل تھا اور جب ہم شہید اکبر خان سے ملے تو موضوع سخن مختلف معاملات اور موضوعات کے گرد گھومنے کے بعد بلوچستان کی تاریخ اقدارو روایات اور شخصیات کے گرد  آئی تو اکبر خان بگٹی نے ہمیں اپنے پہلو میں پڑی۔عزیز بگٹی کی مشہور کتاب ”تاریخ بلوچستان شخصیات کے آئینے میں ”اٹھا کر تھما دیا تھا جس کا پیش لفظ بھی نواب صاحب نے خود لکھا تھا اکبر خان بگٹی نے ہمیں کتاب دیتے ہوئے عزیز بگٹی کی بڑے عالمانہ انداز میں تعریف وستائش بھی کیااور ساتھ ہی تاکید بھی کی تھی کہ وہ سب آج رات کتاب کو تفصیل سے پڑھ لیں اور جب کل دوپہر کو آپ سب ”نیمروش“یعنی دوپہر کے کھانے پر یہاں آئیں گے تو مزید گفتگو کریں گے۔

بعدازاں وقفے وقفے سے میں نے عزیز بگٹی صاحب کی اردو میں دستیاب تمام کتابیں پڑھ لی تھیں۔ ”تاریخ بلوچستان شخصیات کے آئینے میں“ کے علاوہ ان کی دیگر کتابیں“ جس میں بلوچستان قبائلی نظام اور سیاسی کلچر اور بلوچ مزاحمتی ادب خاص طور پر قابل ذکر ہیں جس میں بلوچستان کی تاریخ کے مختلف ادوار، قبائلی نظام کے مختلف رنگ و روپ، سیاسی کلچر کے اہم اجزا اور نمایاں شخصیات کے متعلق دلچسپی رکھنے والے طالب علموں کے لیے بیش بہا مواد موجود ہے۔ ان کی بلوچستان کی تاریخ، سیاست قبائلی نظام اور دیگر موضوعات پر جاندار تصنیفات سے قطع نظر جب انہوں نے بلوچستان سے شائع ہونے والے مختلف اخبارات میں تو اتر سے بلوچستان کی سیاست مزاحمت او ردیگر صورتحال پر کالمز لکھنا شروع کیے تو ان کی فکری و نظریاتی اور علمی جہتوں کے کئی اور دروا ہونا شروع ہوگئے تھے اور ان کی عالمانہ رائے کا بھر پور اظہار پڑھنے کو ملتا تھا بعد ازاں انہوں نے اپنے اخباری کالمز کو کتابی شکل میں ”غلامی کا نشہ“ کے نام سے شائع بھی کرایا جسے بلوچستان کے علمی اور سیاسی حلقوں میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا تھا۔عزیز محمد بگٹی کی تصنیفات کے مطالعے کے دوران یہ جان کر خوشگوار حیرت بھی ہوا کہ انہوں نے تخلیقی عمل کی ابتدا اپنی مادری زبان سے کی تھی اور عین شباب اور جوانی کے دنوں میں بلوچی افسانہ نگاری شروع کی اور بلوچی افسانوی کی پہلی کتاب ”لوذو غام“ کے نام سے 1981میں قلات پبلی کیشنز کوئٹہ سے شائع کروایا۔ بعدازاں ”ان کی بلوچی افسانوں پر مشتمل دوسری کتاب ”تراتانی کشار“  2012میں بلوچی اکیڈمی کوئٹہ نے شائع کرادی تھی۔ خود عزیز بگٹی نے بلوچی اکیڈمی میں بطور جنرل سکریٹری بھی خدمات سرانجام دی تھیں۔یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ایک حقیقی اور جنین دانشور کی طرح عزیز بگٹی کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت رہی ہے۔ انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ طلبا سیاست تخلیق لکھنے پڑھنے اور پڑھانے میں گزار دیا تھا بلکہ بقول ڈاکٹر علی دوست بلوچ“ وہ پیراں سالی اور شدید بیماری کے باوجود آخری عمر میں بھی کتاب بینی سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہ تھا۔ اور جب بھی ان سے کسی نئی کتاب کی بات کرتے تھے تو ان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوجاتی تھی۔وہ آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہے  لیکن اس کی علمی و ادبی خدمات اور تخلیقات اتنے زیادہ ہیں جس پر ہم ہماری تاریخ اور ہماری آنے والی نسلیں سینہ تھان کر فخر کر کے نازاں رہیں گے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے