جگ سارا موہ کا منگل ہے

میرے مَن میں ببول کا جنگل ہے

”چل، اوڈ کے بچے….!“۔

وہ کانٹوں ایسی آواز کی گونجوں پر پاؤں رکھتا چلتا رہا۔ بے پایاں راستہ، لہو لہو پیر۔ کسی نے اس کے وجود کو ریزہ ریزہ کرکے،اس کے گرد لکشمن ریکھا بناکراسے دنیا سے الگ کردیا تھا۔ ریکھا سے باہر جگ میں موہ کا منگل مچا ہوا تھا، لیکن ریکھا کے اندر صحرا تھا۔ دوردور تک کانٹوں بھرے پیچرے تھے۔ ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی کڑا سچ تھا۔

”راستی“ اس کی جیجی ماں تھی۔ وہ ایک ٹھنڈا سچ تھی، جس کی گود میں اس کی پناہ تھی۔ وہ جلاتی بھسم کرتی سچائیوں سے بھاگ کر وہاں پناہ لیتا۔ سکول کی چاردیواری سے باہر جو سوال ہوتے، وہ ان کے جواب ماں سے ہی پوچھتا۔ استاد اس کے سوالات سے بیزار ہوکر کہتا، ”آدم! تم سوال بہت پوچھتے ہو۔ چھورے! کبھی جواب بھی اتنے دیا کرو۔“

ساتھی اس کے سوالوں کا مذاق اڑاتے،”یار! تم اتنے سوال کیوں پوچھتے ہو؟“

لیکن جیجی اس کے سوالوں سے کبھی بیزار نہ ہوتی۔ وہ ہمیشہ مسکرا کر سوال کا جواب دیتی۔ اس دن اسے جیوگرافی کا کام ملا تھا۔

”جیجی! تمھیں پتا ہے،دھرتی کے گرد ہوا کی تہہ ہے۔“ اس نے لکھتے لکھتے جیجی کو بتایا،”ہماری دھرتی پر جو کچھ ہے، وہ اس تہہ کے اندر ہے۔ بادل، ہوا، آواز، تہہ سے باہر صرف خلا ہے۔“

جیجی نے رِلّی سیتے ہوئے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔

آدم کچھ سوچنے لگا۔ پھر اس نے پوچھا،”جیجی! یہ سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں سردی کہاں چلی جاتی ہیں؟“

”زمین کے اندر۔“ جیجی نے مسکراکر جواب دیا،”اسی لیے تو سردیوں میں کنویں کا پانی گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا ہوتا ہے۔“

وہ سوچ میں پڑگیا اور پھر کہنے لگا،”اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو سردیوں میں تھوڑی سی گرمی اور سردیوں میں گرمی زمین سے نکال سکتے ہیں۔“

”وہ کیسے؟“ جیجی نے پوچھا۔

وہ گہری سوچ میں غرق ہوگیا۔اس نے کچھ دیر کے بعد کہا،”میں بڑا ہوکر اس کا کوئی نہ کوئی طریقہ ڈھونڈ نکالوں گا۔“

پھر اس نے کاپی پر اپنا نام لکھتے ہوئے پوچھا،”جیجی! آپ نے بھلا میرا نام آدم کیوں رکھا؟“

”اس لیے کہ آدم کو اللہ سائیں نے خاص طور پر اپنے ہاتھوں سے بنایاتھا، بغیر ماں باپ کے۔ تم بھی تو خاص ہو نا!“

اس وقت پڑوسی عدلُو سامان لے آیا اور جیجی سامان لینے میں مصروف گئی۔

یہی عدلو اکثروبیشتر ان کا سودا سلف لے آتا۔ باقی رشتہ دار تو کبھی کبھار منہ دکھاتے اور وہ بھی عید وغیرہ کے موقعہ پر۔ ان کے گھر کے ساتھ ہی ذاکر کا گھر تھا۔ ذاکر ماں جی کا بھتیجا تھا، لیکن گھر ساتھ ساتھ ہونے کے باوجود بھی وہ ان کا خیال نہ رکھتے تھے۔

اس دن وہ بہت ہی خوش تھا۔ کیوں کہ استاد نے اسے بہتر کام کرنے پر شاباش دی تھی اور اسے ماں جی نے بھی بتایا تھا کہ وہ  ”خاص“ ہے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہاتھا۔ البتہ اسے کچھ پریشانی لاحق ہوگئی تھی، کیوں کہ سکول میں اس کی قاسو کوہری کے بیٹے ہموں کے ساتھ چھوٹی سی لڑائی ہوگئی تھی۔ اس میں قصور اُس کا نہیں تھا، ہموں نے ہی پیش قدمی کی تھی، لیکن باوجود اس کے اُس نے اِسے دھمکی دی تھی کہ میں اپنے باپ سے کہہ کرتمھیں پٹواؤں گا۔ قاسو سکول کے باہر چھولے بیچتا تھا۔ اس کی اساتذہ کے ساتھ بھی دعا سلام تھی۔ جیسے ہی سکول کی چھٹی ہوئی تو آدم تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا گھر کو روانہ ہوا،لیکن ہموں اس سے بھی پہلے نکل کر اپنے باپ سے فریاد کرچکاتھا۔

وہ جیسے ہی باہر نکلا تو قاسو نے اسے دیکھ لیا اور اُس نے وہیں سے آواز لگائی،”ارے بھاگتے کہاں ہو اوڈ کے بچے؟ٹھہر ذرا تیری خبر لیتا ہوں۔“

آدم کے قدم تیز ہوگئے۔ وہ جتنا ہوسکتا تھا گھر کی طرف تیز دوڑنے لگا۔ ”اوڈ کے بچے…. اوڈ کے پتر….!!“

اُس نے گھر پہنچ کر گلوگیر آوزا میں کہا،”جیجی! کیا ہم اوڈ ہیں؟“

جیجی اسے ہکا بکا ہوکر دیکھنے لگی، پھر پوچھا،”تمھیں کس نے کہا؟“

”چاچا قاسو نے مجھے کہا، اوڈ کے بچے۔“

جیجی نے اسے کھینچ کر گلے لگا لیا اور تسلی دیتے ہوئے کہا،”نہیں، میرے راج دلارے! یوں ہی غصہ میں کہہ دیا ہوگا۔“

سردیاں پوری ہوئیں تو نئے موسم کے ساتھ لڑکوں کے نئے کھیل بھی نکل آئے۔آسمان پر پتنگوں کے رنگ بکھر گئے اور گلیوں میں ڈنڈا گلی اور کنچوں کی بہاریں لگ گئیں۔ لیکن آدم کو یہ کھیل کھیلنے کا شوق نہ تھااور نہ ہی فرصت۔ استاد نے اسے کہا تھا،”آدم تمھیں سخت محنت کرنی ہے تاکہ تم سکالر شپ کا امتحان پاس کرسکو۔“

اس نے دن رات ا تنی محنت کی کہ وہ سکالر شپ کے امتحان میں دوسری پوزیشن میں پاس ہوگیا۔ استاد نے جب اسے یہ خوشخبری سنائی تب وہ چھٹی ہونے کے بعد دوڑتا ہوا گھر پہنچاتاکہ مذکورہ خوشخبری جیجی کو سنا سکے۔ وہ جیسے ہی گلی کے موڑ تک پہنچا تو ایک گِلی بڑے زور سے اس کی پیشانی پرلگی۔ اسے ایک پل کے لیے تو یوں لگا کہ ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔اس کی پیشانی پرگومڑ ابھر آیا۔ اس نے پیشانی سہلاتے ہوئے چاروں طرف دیکھا،سامنے ذاکر کا بیٹا رشیدڈنڈا لیے کھڑا تھا۔

”یہ بھی کوئی کھیلنے کی جگہ ہے۔ کسی اور کو اگر چوٹ لگے گی تو محلہ میں خواہ مخواہ کا جھگڑا ہوجائے گا۔ جاؤ جاکر میدان میں کھیلو۔“ آدم نے اس سے ڈنڈا چھین کر دور پھینک دیا اور اپنے گھر کو چلا گیا۔

جیجی سامنے چولہے پر بیٹھی کھانا پکا رہی تھی۔ وہ بیٹے کو آتا دیکھ کر مسکرائی، لیکن اچانک اس کی نظریں اس کی پیشانی پر پڑگئیں تو پوچھ لیا، ”یہ کیا ہوا ہے؟“

”کچھ نہیں، جیجی! بچے کھیل رہے تھے تو گِلی مجھے آکر لگی۔“اس نے جواباً کہا۔

”اچھا… چلو… ادھر آؤ، تمھیں ٹکور کردوں۔“

وہ جیجی کے نزدیک جاکر بیٹھ گیا۔ جیجی نے اپنی چادر کے پلو کو آگ پر تاپ کر اس کی پیشانی پر ٹکورکرتے ہوئے پوچھا،”کس کی گِلی لگی؟“

”جیجی!“ آدم نے سوال کا جواب دینے سے کتراتے ہوئے کہا،”جیجی! میں سکالرشپ کے امتحان میں دوسری پوزیشن پر آیا ہوں۔“

”واقعی!“ جیجی نے خوش ہوکر پوچھا۔

اس وقت ذاکر اندر داخل ہوااور غصہ میں کہنے لگا،”پھوپھی! اپنے اس بھیل کو سمجھاؤ کہ ہمارے بچوں سے مت الجھے۔ اس نے میرے بیٹے سے ڈنڈاچھینا ہے۔“

”پتر! بچہ ہے۔“ راستی نے کہا، ”بچوں کا یہی تو کام ہے، ایک دوسرے سے لڑنا کھیلنا۔“

”یہ ہمارے بچوں کے برابر تونہیں ہے نا کہ ہم اس بھنگی کو برداشت کریں۔“ ذاکر نے آدم کی طرف نفرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔

”ٹھیک ہے، بابا! آئندہ ایسا نہیں کریگا۔“ جیجی نے شکست قبول کرتے ہوئے کہا۔

ذاکر بک بک کرتا ہوا باہر نکل گیا۔

اس کے چلے جانے کے بعد جیجی نے آدم کی پیشانی کے گومڑ کو سینکتے ہوئے نرمی سے سمجھایا،”تم دوبارہ ذاکر کے بچوں کو کبھی کچھ مت کہنا۔“

ایک ہفتہ بعد ذاکر کی ماں زیبل ان کے گھر آئی اور کہنے لگی،”راستی! آج معمار کام پر آئے گا، تم پردہ کرنا۔“

”کیوں؟ بھابھی! کیا کام کروارہے ہو؟“ راستی نے پوچھا۔

”ذاکر دیوار اونچی کروارہا ہے،کہتا ہے کہ دیوار چھوٹی ہے، بے پر دگی ہوتی ہے۔“

راستی دنگ رہ گئی۔ پوچھنے لگی،”کس سے بے پردگی ہورہی ہے؟میرے گھر میں کون سے مرد ہیں؟“

”دیکھ، راستی! دل پرمت لینا،“ ذاکر کی ماں نے کہا،”بچے آج چھوٹے، کل بڑے۔تمھارا لڑکا ابھی سے بڑھنے لگا ہے۔ ہم اپنے ننگ تو اسے دکھانے سے رہے۔“

”بھابھی!“ راستی نے گلوگیر لہجہ میں کہا،”میرا اپنا پیٹ جایا ہوتا تو بھی آپ ایسا ہی کرتے؟“

”دیکھ،مائی!“ زیبل نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا،”اپنی نسل کے ساتھ کون ایسا کرتا ہے؟ تم دین علم والی مائی ہو، اب میں تمھیں کیا کہوں؟ تم نے سفید بالوں والی عمر میں کام بھی تو ایسا ہی کیانا۔ تمھیں کیا ضرورت تھی؟ بھتیجے تیرے باپ کی پیڑھی، کیا وہ تمھیں چھوڑدیتے؟ رانی بنی بیٹھی رہتیں، جگ تمھیں سلام کرتا۔“

اس وقت آدم کمرے سے باہر نکلا۔ زیبل نے آدم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،”تم نے اس کے لیے اپنی زندگی خراب کردی۔“ وہ یہی کہہ کر چل دی۔

آدم سیدھا جیجی کی طرف گیا، جو بڑی افسردہ بیٹھی ہوئی تھی۔

”جیجی! چچی زیبل کیوں ناراض ہوئی ہے؟“ آدم نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا، ”میرے سبب تمھاری زندگی خراب ہوگئی ہے کیا؟“

جیجی کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ دکھ کی جگہ ملکوتی مسکراہٹ بکھر گئی۔ اس نے آدم کو کھینچ کر گلے لگایا اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرکر ٹھنڈی پرسکون آواز میں کہا، ”نہیں، میری جان!تم تو میری شان ہو۔ تم سے پہلے میں بے اولاد اور لاوارث تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میری زندگی کا کیا مقصد،کیا ضرورت ہے؟تمھارے آنے کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ رب مجھ پر کتنا مہربان ہے۔ تم رب کی امانت ہو۔ اس نے مجھے اس قابل جانا، تبھی تو اس نے یہ امانت میرے حوالہ کی۔ میں تو صرف نگہبان ہوں، اٹل خزانہ تو تمہی ہو۔ ان مورکھوں کو رب کی مرضی کا کیا پتا!“

اس دن جب وہ سکول سے لوٹاتو دروازے پر کچھ دیر کھڑا رہا۔ ذاکر ان کے دروازے پر کھڑا راج مستریوں کو دیکھ رہا تھا جو درمیانی دیوار تعمیر کررہے تھے۔ ذاکر کی نظر اس پر پڑی تو اس کی نگاہوں میں فوراً حقارت ظاہر ہوئی اور اس نے منہ خراب کرکے کہا،”ارے کیا تماشا دیکھ رہے ہو۔ چل، جایہاں سے اوڈ کے بچے…“

وہ تیزقدم اٹھاتا اندر چلاگیا۔ اس نے اندر جاکر دیکھا کہ جیجی سامان باندھ رہی ہے۔ آدم نے حیران ہوکر پوچھا،”جیجی! ہم کہاں جارہے ہیں؟“

”ہم دریا پار جارہے ہیں، میری جان!“ جیجی نے کہا، ”وہاں ہمارے دور کے رشتہ دار رہتے ہیں۔ وہاں سکول بھی اچھے ہیں۔“

آدم کے دل نے نہیں مانا کہ سنگت ساتھ چھوڑکر دوسری جگہ جائے، لیکن اسے پتا تھا کہ جیجی ہمیشہ صحیح بات کرتی تھی، لہٰذا اس کا جانا ہی بہتر ہوگا۔

***

وہ نئی جگہ اور نئے لوگ اس کی زندگی میں پرسکون خاموشی لے آئے۔ وقت کا بہاؤ اپنے ساتھ ماہ و سال کو بہاتا چلا گیا۔ وہ پورے گاؤں کا بھیا آدم تھا اور جیجی وہاں کی پسندیدہ مُلّانی۔ وڈیرے کی مہربانی سے انہیں ایک چھوٹا سا گھر میسر تھا۔ پورے گاؤں کی عورتیں جیجی سے جھاڑ پھونک کرواتیں اور بچے اس کے ہاں قرآن پاک پڑھتے۔

یہی کام ان کی پہچان ان کے رزق کا وسیلہ تھا۔ آدم آٹھ جماعتیں پاس کرکے قریبی قصبہ میں نویں جماعت میں داخل ہوگیا اور وہ سکول کا سب سے زیادہ ہوشیار شاگرد گنا جاتا۔

آدم آنگن میں ایک طرف چارپائی پر بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس سے تھوڑی دور جیجی بچوں کو قرآن پاک کی تفسیر پڑھ کر سنا رہی تھی،”اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر آدم کو اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ کیوں کہ ہم نے جب امانت کا بارزمین و آسمان کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اٹھانے سے انکار کیا اور ڈر گئے۔ لیکن یہی بوجھ انسان نے اٹھالیا۔“

”جیجی!“ آدم نے پوچھا،”اللہ سائیں نے انسان کو کون سا بوجھ اٹھانے کے لیے پیدا کیا؟“

”اللہ سائیں نے اپنی پوری کائنات میں علم کے خزانہ چھپاکر رکھے ہیں۔ اس نے انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ کائنات میں چھپے ہوئے ان خزانوں کو ڈھونڈ نکالے۔“ جیجی نے اسے بتایا۔

”پھر کیا ہوگا؟“ آدم نے پوچھا۔

”پھر وہ جیسے جیسے خزانے ڈھونڈتا جائے گا، اسے نہ صرف خود حیرت اور خوشی حاصل ہوگی بلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی کئی خوشیاں اور حیرانیاں ڈھونڈ نکالے گا۔“

”جیجی! مجھے بھی ایسے ہی خزانے ڈھونڈنے ہیں۔“ آدم نے اپنے اندر میں ایک نیا ولولہ محسوس کرتے ہوئے کہا۔

اس وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ آدم کتاب بند کرکے باہر گیا۔ باہر ذاکر کھڑا تھا۔ اس نے پوچھا، ”پھوپھی گھر میں ہے؟“اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیر دروازے کی بوری ہٹاکر اندر داخل ہوگیا۔ جیجی اسے دیکھ کر پہلے پہل تو حیران ہوئی پھر اسے خوش آمدید کہنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اور بیٹھنے کی دعوت دے کر کہنے لگی،”بیٹا! آج کیسے راستہ بھول بیٹھے؟ تم نے تو پھوپھی کو بالکل بھلا دیا ہے۔“

”پھوپھی! تم نے بھی تو ملک چھوڑدیا، اتنے برسوں میں کبھی لوٹ کر نہ پوچھا!؟“

”بس، بیٹا! جہاں دانہ پانی لکھا ہو…“

ذاکر رات ان کے ہاں ٹھہرا۔ آدم کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ذاکر اتنے برسوں بعد ان سے ملنے کیوں آیا تھا۔ البتہ وہ رات کے وقت کسی بات پر جیجی کے ساتھ کچھ تیز ہوگیا تو اس نے یہی جانا کہ کوئی معاملہ ضرور ہے۔

وہ صبح کے وقت جب کتابیں اٹھاکر سکول جانے کو تیار ہوا تو اس نے ایک بار پھر ذاکر کو تیز لہجہ میں بولتے سنا۔ وہ کمرے سے نکل کر رسوئی والے چھپر کی طرف گیا، جہاں ذاکر کھڑا جیجی کے ساتھ بات کررہا تھا۔ ”تم گاؤں چل کر رہوگی نہیں۔ تیرا کوئی آگے نہ پیچھے۔ تمھارے وارث آخر کارہم ہی توہیں۔ تبھی تو کہتا ہوں کہ جگہ میرے نام کردوتا کہ میں اپنی جگہ سے ملاکر بڑا مکان بنواؤں۔“

جیجی نے کوئی جواب نہیں دیا۔

”تو تم لکھ کر نہیں دوگی؟“ ذاکر نے اسے گھورتے ہوئے کہا، ”تمھاری نہ کوئی اولاد نہ رشتہ دار، پھر کسے دوگی؟ اسے، جسے اپنی اصل نسل کا ہی کچھ پتا نہیں۔“ اس نے آدم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

اس وقت جیجی نے آدم کی طرف دیکھا اور کہا، ”تم ابھی تک سکول نہیں گئے؟ جاؤ، تمھیں دیر ہورہی ہے۔“

ذاکر نے اسے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے غصہ میں کہا،”جاؤ رے اوڈ کی اولاد….“

آدم ایک دم مڑا اور تیز تیز چلتا وہاں سے نکل گیا۔ وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتا سکول جارہا تھا، لیکن اس کے قدموں سے بھی تیز گونجیں اس کا پیچھا کررہی تھیں…. جاؤ رے اوڈ کی اولاد….

ذاکر دودن یہیں رہا اور جب تک جیجی نے اسے کاغذات پر دستخط نہیں دے دیے، اس نے پیچھانہیں چھوڑا۔ لیکن ذاکر نے جودو دن جو اس گاؤں میں گذارے، وہ آدم کی دنیا کی ہی تبدیل کرگئے۔ پورے گاؤں کے ہر آدمی کی نگاہوں میں ناپسندیدہ سوال تھا یا پھر بے رخی۔ چچا رجب کریانہ والا جو روزانہ اسے دیکھ کر برنی سے لمٹا نکال کر بڑی عقیدت سے پیش کرتا تھا، اب اسے دیکھ کر برنی یوں اندر چھپالی کہ جیسے آدم کا ہاتھ لگنے سے ناپاک ہوجائے گی۔

چچا کمدار جب کبھی راہ چلتے ملتا تو اسے بڑے چاؤ سے خوش آمدیدکہتا تھا، ”کیا حال ہیں، آدم میاں!؟“ لیکن آج اس نے دیکھا تو نظریں پھیر کر چلا گیا۔

کنویں پر کھڑی خالہ سدوری اسے دیکھ کر دوسری عورتوں کے ساتھ کھسر پھسر کرنے لگی، ”مائی! شکل تو اچھی بھلی ہے، لیکن پتا نہیں کس کا جایا ہے، مراثیوں کا ہے کہ چوہڑوں کا….!؟“

وہ جہاں سے گذرتا، ہر طرف سے یہی گونجیں سنائی دیتیں۔ وہ اس کے باوجود چلتا رہا۔ اس کے ہر قدم کے نیچے کانٹے تھے، جن پر وہ چل رہا تھا، لہو لہو پاؤں اٹھاتا ہوا۔

ہاتھ پاؤں زخمی کرے لیکن فاصلہ نہ گھٹے

یہ کون سا ببولوں کا جنگل ہے بھلا…..

جیجی نے سامان باندھتے ہوئے اس کے بے احساس چہرے کو دیکھا اور کہا،”آدم! اب تم بڑے ہوگئے ہو۔ اپنے بارے میں جو کچھ جاننا چاہو تو میں تمھیں بتاؤں۔“

”مجھے اپنے بارے میں پتا ہے۔“ آدم نے لاپروائی سے کہا اور آگے بڑھ کر سامان باندھنے میں اس کی مدد کرنے لگا۔

جیجی نے پوچھا،”تمھیں کیا خیر ہے؟“

”میں آدم ہوں، جو بغیر ماں باپ کے ہے۔ لیکن میری ایک جیجی ہے اور میں آج کے بعداپنے بارے میں تم سے کبھی نہیں پوچھوں گا اور تم بھی مجھے کچھ مت بتانا۔“

وہ علاقہ تبدیل کرکے ایک اور جگہ چلے آئے۔ آدم نے اپنا سفر جاری رکھا اور جیجی سے اپنے متعلق کبھی کوئی سوال نہیں پوچھا۔ کیوں کہ اسے اپنے سوالوں کے جواب بغیر پوچھے ہی مل چکے تھے۔ اس رات جب جیجی نے ذاکر کو کاغذات پر دستخط دیے تھے تب اسے سینہ سے لگا کر کہا تھا،”اللہ تعالیٰ نے خود کہا ہے کہ میں نے آدم کو پیدا کیا ہے محبت کے ساتھ تاکہ لوگ مجھے پہچانیں۔ میں ایک چھپا ہوا خزانہ ہوں۔ اس لیے جو لوگ تمھیں بدشد کہتے ہیں، وہ قدرت کے منکر ہیں۔ آخر قدرت والے نے جس چیز کو محبت کے ساتھ بنایا ہے، وہ خراب کس طرح ہوسکتی ہے!؟“

وہ ایک غریب نواز شہر تھا۔ وہاں آسمان کو چھونے والی عمارتوں کے قدموں میں چھوٹے چھوٹے مکان اور جھونپڑے بھی تھے۔ شاہی طعام کھاکراکڑی گردن چلنے والے انسانوں کے ساتھ ساتھ دال روٹی کھاکر پاپیادہ چلنے والے لوگ بھی تھے۔ آسمان سے کندھا ملاکر جھومنے والے پانی بھرے سمندر کے قریب لوگوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں اگر کوئی گم ہوجائے تو ڈھونڈنے پر بھی نہ ملے۔ اس غریب نواز شہر نے انہیں اپنی گود میں جگہ دے دی۔ جینے کی خواہش ہو تو زندگی دینے والا وسائل میں برکت ڈال دیتا ہے۔ لیکن شان سے جینے کی خواہش ہو تو جل شانہ حوصلوں میں برکت پیدا کردیتا ہے۔ آدم کے حوصلوں میں بھی اسی نے برکت پیدا کی تھی۔ اس نے شہر کو کھنگال ڈالا، ہر روپ میں، کبھی اخبار بیچنے والا بن کر تو کبھی سپر سٹور پر سیلز مین کے روپ میں تو کبھی لائبریرین بن کر تو کبھی ہوٹل مینیجر بن کر۔ جب ساتوں رنگ اکٹھے ہوتے ہیں تب دھنک بنتی ہے، جو عام نہیں بلکہ خاص ہوتی ہے۔ زندگی کے ساتوں رنگوں میں رنگ کر وہ جو کچھ بنا، وہی خاص تھا۔ وہ بی ایس سی آنرز کرکے قابلیت کی بنیاد پر ایک پرائیویٹ فرم میں منتخب ہوچکا تھا۔ لیکن اس کی منزل ابھی اور آگے تھی۔ وہ سی ایس ایس کی تیار ی کررہا تھا۔ اسے اپنی زندگی میں کامیابیوں کاتب سے یقین ہوچکا تھا، جب سے سوبھ اس کی زندگی میں آئی تھی۔

اس نے جب پہلے دن سوبھ کو دفتر میں دیکھا تو اسے ہنسی آگئی۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے کوئی سہمی ہوئی ہرنی اپنی ڈار سے بچھڑ کر جنگل میں آگئی ہو۔ وہ آگے بڑھنے سے ڈر رہی تھی۔ آدم نے ہاتھ بڑھاکر اسے سہارا دیا، حوصلہ دیا اور اعتماد حاصل کرنے میں مدد دی۔ اس کے حصہ کا بوجھ اٹھانے میں آدم کو خوشی ہوتی تھی۔ سوبھ اس کی مدد اور اس کے سہارے کی عادی ہوچکی تھی۔ وہ اکثر اسے کہتی، ”آدم! اگر تم

نہ ہوتے تو میں کیا کرتی!؟“

”کیوں؟“ آدم ہنس کر پوچھتا۔

”واقعی تم نے میرا حوصلہ اور ہمت بڑھائی ہے۔ میں اتنی بزدل اور کم ہمت تھی کہ تھوڑی تھوڑی ناکامی پر حوصلہ ہار بیٹھتی تھی۔ تم سے ملنے کے بعد میں کتنی کونفیڈنٹ ہوگئی ہوں۔“

٭

جیجی نماز اور نفل پڑھنے کے بعدفارغ ہوئی تو اس نے دیکھا کہ آدم فائلوں کا ڈھیر سامنے رکھے بیٹھا ابھی تک کام کررہا ہے۔

”آدم! جب سے آئے ہو، کام ہی کیے جارہے ہو، آدھی رات ہوگئی ہے۔ بیٹا! کچھ آرام کرو۔“

”بس، جیجی! تھوڑا سا کام رہ گیا ہے۔“ آدم نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔

”بیٹا! دفتر میں کام زیادہ ہے کیا؟“

”نہیں، جیجی! یہ سوبھ کا کام ہے۔ اس کے رکارڈ میں کچھ مسئلہ ہوگیا ہے۔ میں کل سے تین دن کے لیے ورکشاپ میں جارہا ہوں، اس لیے سوچ رہا تھا کہ کام پورا کرکے جاؤں، میری غیر حاضری میں سوبھ کو کوئی مسئلہ نہ ہو۔“

جیجی سوچ میں پڑگئی۔ وہ اکثر سوبھ کا کام گھر لے آتااور کبھی کبھار سوبھ بھی اس کے ساتھ آجاتی۔ وہ جتنا وقت آدم کے ساتھ ہوتی، آدم خوش نظر آتا۔ ان دونوں کو آپس میں خوش دیکھ کر جیجی کے دل میں ان جانے خدشے سراٹھانے لگتے اور وہ دعا مانگتی کہ ان کی خوشیاں سلامت رہیں۔

جیجی جاکر اپنے بستر پر بیٹھی اور تسبیح پڑھنے لگی۔آدم نے پھر گردن موڑ کر جیجی کی طرف دیکھااور پوچھا، ”جیجی! نیند نہیں آرہی کیا!؟“

”میری جان! بڑھاپے میں نیند کہاں؟“

”کچھ دیر بعد جیجی نے آدم کی طرف دیکھا اور نرم لہجہ میں کہا،”آدم! بھول اور غفلت انسان کو اپنے مقصد سے گمراہ کردیتے ہیں۔“

”وہ کیسے؟ جیجی!“

”وہ اس طرح کہ آدم علیہ السلام کو رب نے بہشت کی بادشاہی عطا کی۔ اس کے سر پرشاہی تاج تھا۔ اسے ہر نعمت کی اجازت حاصل تھی۔اسے بس ایک چیز سے منع کیا گیا۔ وہ اس بات کو کچھ عرصہ بعد بھول بیٹھا، جس کے نتیجہ میں شیطان نے اسے گمراہ کردیا۔تب  جبرائیل اور اسرافیل نے مل کر اس کے سر سے شاہی تاج اتاردیا۔“

آدم کچھ دیر تک الجھی نگاہوں سے جیجی کی طرف دیکھتا رہا اور پھر پوچھا،”جیجی! آپ نے آج یہ بات کیوں کی؟“

جیجی نے تسبیح تکیہ کے نیچے رکھی اور لیٹتے ہوئے کہا، ”وہ اس لیے یاد آئی کہ شاید تمھیں نہ بتائی ہو کہ آدم کو گمراہ کرنے والی حوا تھی۔“

٭

آدم اور سوبھ سمندر کنارے پتھروں پر بیٹھے مست اور گرجتے ہوئے سمندر کی طرف دیکھ رہے تھے۔

”سوبھ! تم نے آئندہ کے لیے کیا سوچا ہے؟“ آدم نے پوچھا۔

”پہلے تم بتاؤ، تمھارا فیوچر پلان کیا ہے؟“ سوبھ نے آدم سے پوچھا۔

”میں چاہتا ہوں کہ سی ایس ایس کرکے فارن سروس میں چلا جاؤں۔ کسی انٹرنیشنل اورگنائیزیشن میں کام کروں۔“

”وہ کیوں؟“ سوبھ نے پوچھا۔

آدم نے دور آسمان میں دیکھتے ہوئے کہا،”میں مستقبل میں کوئی ایسا کام کرنا چاہتا ہوں، جس میں میرے لیے حیرانیاں اور دوسروں کے لیے خوشیاں ہوں۔ ایک جیسی خوشیاں۔ مذہب، نسل اورقوم کے مت بھید کے بغیر بھلائی ہو۔ کوئی سرحد کوئی بندش نہ ہو۔ رب ایک ہے تو پھر سب ایک کیوں نہ ہوں!؟“

سوبھ اسے دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔ آدم نے گردن پھیر کر اسے دیکھا اور پوچھا، ”تم اس سفر میں میرے ساتھ چلوگی؟ سوبھ!“

سوبھ نے مسکرا کر گردن اثبات میں ہلادی۔

”میری کلاس، میری پہچان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی میرے ساتھ چلوگی؟“آدم نے دوبارہ سوال کیا۔

سوبھ نے بڑی نرمی کے ساتھ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑااو رکہا،”آدم! ہم گذشتہ ایک برس سے ایک ساتھ ہیں۔ اب تو میں قدم قدم تمھارے ساتھ چلنا سیکھ گئی ہوں۔ پھر بھی تم مجھ سے یہ سوال پوچھ رہے ہو؟“

”تم شاید میرے متعلق مکمل معلومات نہیں رکھتیں!؟“ آدم نے کہا۔

”مجھے تمھارے بارے میں کچھ نہیں جاننا۔ تمھاری کلاس، تمھارے خاندان سے مجھ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم آپ اپنی پہچان ہو۔“

”سوبھ!“ آدم نے سنجیدہ ہوکر کہا،”مجھے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سفر مشکل ہو، تکلیفوں سے بھرا ہوا ہو۔ تم کہیں تھک تونہیں جاؤگی؟“

”جس سفر میں تم ایسا ہم سفر ہو، اس کی تکلیفوں کو برداشت کرنا مشکل نہیں ہے، آدم!“

*

سوبھ تیارہوکر، پرفیوم لگا نے کے بعد پرس اٹھاکر باہر نکلی تو دروازے پر ماں مل کھڑی تھی۔ ماں نے اسے روکتے ہوئے کہا،”سوبھ! ذرا ٹھہرو، مجھے تم سے بات کرنی ہے۔“ اور پھر وہ اسے کمرے میں لے آئی۔ اس نے پل بھر کے بعد پوچھا،”یہ آدم کون ہے؟“

سوبھ ایک پل کے لیے خاموش ہوگئی اور پھر کہنے لگی، ”کیوں؟ ماں جی! ایسی کوئی بات ہوئی ہے کیا؟“

”سوال پر سوال مت کرو،“ ماں نے اسے کہا، ”میں جو پوچھ رہی ہوں اس کا سیدھا سا جواب دو۔ اس آدم سے تمھارا کتنا تعلق ہے؟“

سوبھ پلنگ پر بیٹھ گئی۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن اس کی خاموشی اس کی ماں کو ایک جواب دے گئی۔

ماں اسے پریشان ہوکر دیکھنے لگی اورپھر کہا، ”سوبھ!ہم نے تم پر اعتماد کرتے ہوئے تمھیں پڑھنے اور ملازمت کرنے کی آزادی دی، تمھیں یہ بھی اختیار ہے کہ تم اپنے لیے کوئی شوہر پسند کرلو۔ لیکن وہ ایسا ہو،جس کے سبب ہمارا سر جھکنے پرمجبور نہ ہو۔“

”ماں!“ سوبھ نے کہا،”آدم آج غریب ہے، لیکن اس کا مستقبل روشن ہے۔ وہ سی ایس ایس کررہا ہے اور اتنا ہوشیار ہے کہ مجھے پورا یقین ہے کہ پہلی کوشش میں ہی کامیاب ہوجائے گا۔ وہ بڑی عمدہ اور نفیس شخصیت کا مالک ہے۔“

”تم اسے کتنا جانتی ہو؟“ ماں نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا،”اس کے خاندان کے بارے میں جانتی ہو؟“

”میں اسے ایک برس سے جانتی ہوں۔“ سوبھ نے بڑے اطمینان سے کہا، ”اس کا باپ بچپن میں ہی فوت ہوگیا تھا۔ وہ اپنی بیوہ والدہ کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کی والدہ بڑی نیک عورت ہے۔“

”لیکن میں نے پوچھ تاچھ کی ہے، اس میں تو کچھ اور پتا چلا ہے۔“

”کیا پتا چلا ہے؟“ وہ حواس باختہ ہوکر ماں کو دیکھنے لگی۔

زرینہ بیٹی کے قریب بیٹھ گئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ آہستہ کہنے لگی، ”سوبھ! روزینہ نے مجھے تمھارے اور آدم کے بارے میں سب کچھ بتادیا تھا۔ ہر ماں چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی کو اچھا شوہر ملے۔ جہاں تک آدم کی شخصیت اور علم کی بات ہے تو وہ ایک اچھا لڑکا ہے۔ لیکن آدمی کے ساتھ اس کا خاندان اور سماج بھی دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے میں نے آدم کے متعلق جانچ کرائی اور جو پتا چلا اس کے مطابق مُلّانی اس کی سگی ماں نہیں ہے۔“

سوبھ حیران ہوکر ماں کی طرف دیکھنے لگی۔

”وہ لڑکا آدم اس نے اپنے گاؤں کے باہر اینٹوں کے بھٹہ کے پاس پایا تھا۔ وہاں اوڈ خانہ بدوش قبیلہ مزدوری کرنے کے لیے کیمپ لگا کر بیٹھا تھا۔ آدم انہی میں سے کسی عورت کا ناجائز بچہ تھا، جسے پیدا ہوتے ہی وہاں چھوڑدیا گیاتھا۔ مائی راستی جو اب جیجی کے نام سے مشہور ہے، اُن دنوں بیوہ تھی۔ اس نے ترس کھاکر اِس بچے کوپالا، لڑکا بڑا ہوا تو وہ عورت اسے طعنوں تنکوں سے بچانے کے لیے ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتی رہتی ہے۔“

سوبھ بس پتھر کی مورت بن کر رہ گئی۔

”یہی سچ ہے،“ ماں نے اسے کہا، ”سچ کبھی چھپتا نہیں، راستی چاہے کہیں بھی جاکر رہے، اس کا سچ ہمیشہ اس کے ساتھ ہی رہے گا۔“

آدم تین دنوں بعد ورکشاپ ختم ہونے پر دفتر آیاتو اسے وہاں کا ماحول ہی بدلا ہوا نظر آیا۔ اسے جو بھی ملا، اس کی نظروں میں کچھ تبدیلی ہی دکھائی دی۔ کسی کی نگاہوں میں طنز تھاتو کوئی اسے جان بوجھ کر نظرانداز کررہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اچانک کون سا انقلاب آگیا ہے؟ وہ حیران پریشان سوبھ کی کیبن کی طرف گیا۔ سوبھ اپنے کمپیوٹر پر ڈیٹا بنارہی تھی۔

”سوبھ!“ اس نے آہستہ پکارا۔

سوبھ نے ایک پل کے لیے نظریں اٹھاکر اسے دیکھا اور کہا،”ہیلو! آدم کیسے ہو؟ ورکشاپ کیسا رہا؟“

اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، لیکن آدم کو اس کی مسکراہٹ میں وہ سچ نظر نہیں آیاجو اسے روزانہ دکھائی دیتا تھا۔

سوبھ اس کا جواب سنے بغیر کمپیوٹر پر مصروف ہوگئی۔ آدم اس کے قریب کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ کچھ دیر یونہی خاموش بیٹھا رہا، پھر اٹھااور کہنے لگا، ”او کے۔ تم اس وقت بزی ہو، فارغ ہوجاؤ تو پھر ملتے ہیں۔“

اور وہ اس کے کیبن سے باہر نکل گیا۔ آدم کے جانے کے بعد روزینہ اس کے کمرے میں آئی اور پوچھنے لگی، ”کیا ہوا؟“

”کچھ نہیں۔“

”لیکن آخر ہوگا کیا؟ تم نے آگے کے لیے کچھ سوچا بھی ہے یا نہیں؟“ روزینہ نے پوچھا۔

سوبھ کمپیوٹر بند کرکے کرسی اس کی طرف گھما کر کچھ سوچنے لگی۔

”سوبھ! تیرے اور آدم کے افیئر کا تو سب کو پتا ہے۔ تم دونوں نے سب کو بتایا تھا کہ جلد ہی تمھارا رشتہ طے ہوجائے گا۔“

”ہاں، روزی!لیکن ماں کہتی ہیں کہ جان بوجھ کر مکھی کون نگلے گا۔“

”تم کیا کہتی ہو؟“ روزینہ نے کہا۔

سوبھ پل بھر خاموش رہی، پھر کہنے لگی،”روزی! زندگی کے فیصلے جذباتی نہیں بلکہ حقیقت پسند بن کر کرنے چاہییں۔ شادی عمر بھر کا معاملہ ہے۔ آگے فیملی بنانی ہے، اسی سماج میں رہنا ہے۔ رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں کو بھی فیس کرنا ہے۔ آدم بذات خود تو بہت بہت اچھا ہے لیکن اس کا فیملی بیک گراؤنڈ، آئی مِین… اس کی اصل نسل…“ سوبھ نے الجھن بھری نگاہوں سے روزینہ کی طرف دیکھا اور اسی وقت اس کی نظریں دروازے پر کھڑے آدم پر پڑگئیں، جو فائل ہاتھ میں لیے بے جان بُت کی طرح اسے دیکھ رہا تھا۔

کوئی روشنی نہ تھی، کوئی آبادی نہ تھی، بس تاریکی ہی تاریکی تھی اور ببول کا جنگل تھا۔ کانٹا کانٹا راہ تھی۔ جسم کے اندر جلتے کریر کے انگارے، شعلہ شعلہ آنکھیں۔ برف کے ہاتھ، پاؤں پتھر کے۔ سفر تھا کہ ختم ہی نہیں ہورہا تھا۔ وہ کئی صدیوں سے پناہ کی تلاش میں چلتا رہا۔ وہ پناہ جو ایک ٹھنڈا سچ تھا، جہاں وہ جلتے جلاتے سچ سے بھاگ کر پناہ لے سکے۔ جیجی راستی بڑے صبر کے ساتھ پڑوسن صَفُل کی دردکتھا سن رہی تھی۔ صَفُل اسے کہہ رہی تھی، ”جیجی راستی! پوری عمر دکھوں میں بسر ہوگئی۔ ایک پل بھی ایسا نہیں کہ میں نے سکھ کی سانس لی ہو۔ آخر میں نے کیا خطا کی ہے کہ میری سزا ختم ہی نہیں ہورہی؟“

جیجی نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا،”اماں! خطا تو دادی حوا نے کی تھی، تبھی تو رب نے اسے اور ان کی بیٹیوں کو پندرہ بلاؤں میں مبتلا کیا اور ان سے حشر تک نجات نہیں۔“

اس وقت جیجی کی نظریں دروازے سے اندر آتے آدم پر پڑیں۔ اس نے کچھ عرصہ قبل پڑوسیوں کے ٹیلی وژن پر امریکہ کے جڑواں ٹاورز کو گرتے دیکھا تھا۔ آہستہ آہستہ نیچے بیٹھتے ہوئی… دھول اڑاتی … مسمار ہوتی اونچی عمارت۔ وہ بھی اس کے پاس اسی طرح بیٹھتا چلا گیا۔

کندھوں سے… گھٹنوں سے… پیروں تک۔

راستی نے دونوں ہاتھ بڑھا کراسے اپنی گود میں لے لیا۔ آدم نے اپنا سر اس کی گود میں رکھ دیا اور اس کی آنکھوں کے پرنالے کھل گئے۔ جیجی راستی نے سامنے بیٹھی صَفُل کو چلے جانے کا اشارہ کیا، جو بڑی حیرت سے انہیں دیکھتی اٹھ کر چلی گئی۔

جیجی نے آدم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ”رو… جتنا رو سکتے ہو، رو۔ انسان کے اندر اتنا کھارا پانی ہے کہ اگر آنکھوں کی نہریں نہ ہوں تو انسان اس میں ڈوب کر مرجائے۔“

پتا نہیں کتنی دیر تک وہ جیجی کی گود میں چہرہ چھپائے روتا رہا پھر سر اٹھا کر کہنے لگا، ”جیجی… میں کس کی خطا کی سزا بھگت رہا ہوں؟“

”یہ سزا نہیں بلکہ آزمائش ہے۔“ جیجی نے اپنے ہاتھوں سے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

”لوگ میری شناخت پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، جیجی! آخر میری پہچان کیا ہے!؟“

جیجی نے اس کے گال پر بہہ آئے آنسو کو اپنی شہادت کی انگلی سے پونچھا اور پرسکون آواز میں کہا، ”تمھاری پہچان یہ ہے کہ تم قدرت کی روح ہو۔ تم آدم ہو۔ خدا کے ہاتھوں سے تخلیق کیے گئے۔ تم ذریعہ ہو خدا کی معرفت کا، تمھیں کسی شناخت کی ضرورت نہیں۔ تم سے تمھاری شناخت مانگنے والے اندھے،گونگے اور بہرے ہیں۔ تمھیں ان اندھوں، گونگوں اور بہروں کے طعنوں سے گمراہ نہیں ہونا۔ تم ذریعہ ہو اپنے پیدا کرنے والے کے خزانے ڈھونڈنے کا۔ تمھیں اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔“

وہ بُت بنا جیجی کو دیکھتا رہا، جس کی آنکھوں میں یہ سوال تھا، ”کیا تم یہ سفر جاری رکھوگے؟“

اس نے اثبات میں گردن ہلائی  اور آنسو پونچھ کر اٹھ کھڑا ہوا، پیروں سے… گھٹنوں سے… کندھوں سے… سر تک بلند ہوا۔

تم نے جسے موہ کا میلا جانا،

وہ جگ ہی ببول کا جنگل ہے…!

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے