کمرہ اندھیرے میں ڈوبا کسی مایوس انسان کی زندگی کی عکاسی کر رہا تھا۔کھڑکی کے سامنے لگی جالی سے چاند کی آسیب زدہ روشنی چھن کر کمرے کے دروازے پر پڑتی، انجیر کے درخت کی شاخوں سے بنی کسی شیطان کے نقوش کو اْجاگر کر رہی تھی۔
پنکھا حسبِ معمول کمرے کی ہی ہوا کو مسلسل گھمانے میں مگن تھا؛ اِک مردہ آواز کے ساتھ، جیسے کسی کی آمد کا سندیسہ سرگوشی میں دے رہا ہو۔اور احتراماً اپنی آواز کسی شریف مرد کی نگاہ کی مانند نیچی کر لی ہو۔گرمی ضرورت سے زیادہ تھی اور خوف بھی۔
کھڑکی سے باہر درخت چڑیلوں کا روپ دھارے ہوئے تھے۔ گھنگھریالے بال والی تو کوئی سیدھے،باریک لمبے بال والی چڑیل۔ہوا کو جیسے دشواری کا سامنا تھا، اپنی راہ میں۔ مانو ہوا بھی آج سہم چکی ہو۔
وقتاً فوقتاً چھت پر بجری کی برسات ہوتی۔یوں لگ رہا تھا کہ چھت پر کسی جشن کا سماں ہو اور پھولوں کے بجائے کام پتھروں سے لیا جارہا ہو۔اس کا بدن پسینے میں لت پت کمبل کے نیچے پگھل رہا تھا۔خوف سے دل بھی اپنی حیثیت سے ذرا تیز دھڑکنے میں مصروف تھا۔دماغ اس کا، اْن شکلوں کی مصوری پر لگا تھا جن کے دِکھنے کا خدشہ کمبل کے پار تھا۔آنکھیں بند ہونے سے کترا رہی تھیں کہ جنکا دیدار کمبل کے پار ہونا ہے کہیں وہ آنکھ بند کرتے ہی نہ دِکھ جائیں۔
اچانک چند پوروں کا لمس رقیہ کو اپنے پیروں کی خاکی جلد پر محسوس ہوا۔آہستہ آہستہ اْن انگلیوں کی حرکت تیز ہونے لگی اور اس کے ساتھ ہی رقیہ کے جسم میں دوڑتی کرنٹ نما بدزیب لہروں کی رفتار بھی۔ وہ جھجکی، بے اختیار چلّانا چاہا مگر ٹھیک اسی لمحے اْس نے خود کو بے سکت پایا۔ہر قسم کی حرکت نا ممکن، چاہے زبان کی یا پیروں کی، جیسے حرکت پر حرکت نہ کرنے کی پابندی لگ چکی ہو۔
اْس کے چْھونے کے انداز سے اب لگ رہا تھا جیسے وہ دبوچنے کی تیاری میں ہو۔جیسے کاٹ کھا جائے گا وہ بھی اتنی صفائی سے کہ پیچھے نہ کوئی ہڈی بچے گی نہ گوشت کا ٹکڑا۔رقیہ شاید ایک معمہ بن جائے، ” راتوں رات غائب ہونے والی لڑکی "۔یہ خیال آتے ہی اس نے ایک بار مذمت کا سوچا مگر سوچتے ہی یہ خیال بھی آیا کہ جب انسان اکیلے کسی حیوان کا مقابلہ نہیں کر سکتا، پھر یہ تو شاید کسی بچپن کی کہانی کا بھوت ہے نجانے کتنا ڈراؤنا،ڈھیٹ اور طاقتور۔
چھونے کے انداز سے "نر” معلوم ہورہا تھا۔ بھوک سے مرتا ہوا ایک بیچارہ ” نر”۔
رقیہ نے چیخنے کا سوچا، ایک بار پھر، مگر زبان پتھر ہو چکی تھی۔وہ بھاری پتھر جو سمندر کی گہرائیوں میں بیٹھ جائے، تیرنے کا خیال زمین پہ چھوڑ کر۔
ایک طرف دردناک موت کا منظر ناچ رہا تھا تو دوسری طرف یہ خیال بھی اس ناچ سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ ایک کونے میں کھڑا موت کو نظر بھر کے دیکھتا ہوا۔۔۔۔رقیہ کی آخری امید، وہ خیال۔
خیال:- اسکی امید اس آخری خیال سے وابستہ تھی۔وہ خیال جو نانی کی کہانیوں سے نکل آیا۔بچپن کی وہ کہانیاں جہاں جِن، بھوت اور چڑیل مرکزی کردار تھے۔کبھی نیک تو کبھی بد۔جو اکثر اوقات ڈرا کے بھاگ جاتے، چھو کے گزر جاتے اور کبھی ظاہر ہوکے غائب ہوجاتے۔
یہ خیال کہ شاید چھو کے گزر جانے والا معاملہ اسکے ساتھ بھی ہو اور وہ بچ جائے، رقیہ کو دلاسہ دیے بیٹھا تھا۔
مگر رقیہ یہ بھول گئی کہ کہانیاں اب مسخ ہو چکی ہیں۔اب ان کہانیوں کو پہچاننا مشکل ہے، ان لاشوں کی طرح جن کا قرض آج بھی کچھ کندھوں پر ہے۔ان کہانیوں میں بھوت ہر وقت دکھائی دیتے ہیں، سرِعام۔چْھو کر پھر نوچ ڈالتے ہیں۔جو ڈراتے نہیں سیدھا مار ڈالتے ہیں۔
جنہیں خون کی نہیں جسم کی تلاش ہوتی ہے۔ ٹھیک اس بھوت کی طرح جو رقیہ کا جسم نوچ گیا۔۔۔مگر۔۔۔زندہ چھوڑ گیا۔
چونکہ کہانی مسخ شدہ ہے تو یہاں نہ ہی موت ہوگی نہ ہی بھوت کبھی کبھار ظاہر ہونگے۔یہ ہر وقت موجود ہونگے، انسانی جسم میں، کبھی مسکراہٹوں کے پیچھے تو کبھی محبتوں کے پیچھے۔ گوشت کے نہیں جِلد کے بھوکے، ڈراؤنی کہانیوں کے مرکزی کردار۔۔۔انسان۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے