اک اداس وادی تھی
چار سو فضا اس کی
سرمئی نقابوں سے
دل کو لبھاتی تھی
دل بھی غضب کا تھا
ٹوہ میں یہ رہتا تھا
سرمئی نقابوں میں
کیا چھپا ہے کہتا تھا
دن کے اجالے میں
رات چاندنی والی
چار چار موسم میں
تانک جھانک رہتی تھی
سرمئی نقابوں کا
حسن وہ فزونی تھا
ایک دن وہی وہ دل
اس تلاش میں مصروف
گیت گنگناتا تھا
بات کس سے کرتا تھا
ہو نہیں سکا معلوم
پھر ہوا کہ وادی میں
سرمئی سے رنگوں کے
اک حسین رستے پر
چلا پڑا اکیلا دل
پھر نظر نہیں آیا
سرمئی فضاؤں میں
سرمئی ستارہ سا
دیر تک رہا روشن
داستاں سنانے کو
خامشی رہی باقی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے