دس سال کے صاف ستھرے بلّو کو کوئی نہیں دیکھتا
مگر وہ کبھی کبھی ہمیں رلا سکتا ہے
ایک روپے میں

ایک روپیہ اب کچھ خریدنے کے قابل نہیں رہا
اور کاغذ کے نوٹ سے پیتل کے سکّوں میں
تبدیل ہو رہا ہے

سات ارب ڈالر کا نیا امریکی خلائی سٹیشن
ایٹمی اور غیر ایٹمی ہتھیاروں پر دولت کا ضیاع
غیر ملکی قرضوں
بینکوں میں قرضوں کے معافی ناموں
اور اسی طرح کی ہزاروں بدعنوانیوں نے
ایک روپے کو بالکل بے کار کر دیا
اور سگنلوں پر بھکاریوں نے
دو روپے کے نوٹ کی توقع شروع کردی

برگر،سینڈوچ،سموسے اور چائے سرو کرنے کے لیے
بلّو کی پگار کیا ہے؟
ہم نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی
ہمارے اپنے مسائل کچھ کم نہیں
ہمیں تو ایک نوجوان کو
بزنس مینجمنٹ کی ایک امریکی کتاب پڑھوانے کے لیے
کئی ہزارروپے ادا کرنے ہوتے ہیں
اور ایسی ہی بہت سی دیگر ادائیگیاں
جو ہمیں ایک تگ و دو میں مصروف رکھتی ہیں

ہم شاموں کو عام طور پر وہاں چائے پیتے ہیں
جہاں ایک پیالی چالیس روپے کی ملتی ہے
مگر لنچ سے پہلے بلّو کے مالک کی کینٹین میں
چار روپے میں

بلّو پر شاید اس کے مالک نے پابندی لگائی ہو
یا اس کے والدین نے سکھایا ہو
یا یہ اس کی فطری خودداری ہو
وجہ کچھ بھی ہو
مگر پانچ روپے کے نوٹ سے بچا ہوا ایک روپیہ
جو ہم اپنی نرم دلی کے باعث
اسے ضرور دینا چاہتے ہیں
وہ بہ اصرار واپس کرکے
ہمیں بے اختیار رلا سکتا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے