بوسیدگی کی دیواروں سے بنا گھر،
جس کی چھت کبھی موہوم
تو کبھی
مفلسی کے جالوں سے اٹی رہتی ہے۔
اسی چھت کی منڈیر پر
ببرا دن بھر کی تھکن دور کرنے کیلئے
سرِ شام وشرام کو آتا ہے۔
اس کی نظریں شفیق جولاہے پر پڑتی ہیں۔
جو رنگوں میں امتیاز کر کے
سینہ و بازو کے زور سے
دھاگوں کے ریشوں کو
چرخاِ ندرت سے کاتتا ہے۔
چرخے کی دھنیں ببرا ترتیب سے یاد کر جاتا ہے۔
مدھر آواز میں انہیں گا کر
ببری کو اگلے دن جا سناتا ہے۔

جولاہا کڑی مشقت سے پیٹ کا رزق کماتا ہے۔
گلی کوچوں میں صدائیں لگا کر
کاندھوں پر لادے ہوئے
رات کی اوٹ سے کمائے گئے
رنگیلے خواب
کوڑیوں کے بھاؤ بیچ جاتا ہے۔
خریدار خوابوں کے نرخ پورے کب دیتے ہیں۔
تھکن سے چور واپس گھر کو
آدھی جیب کے ساتھ لوٹ آتا ہے۔
فاقہ کشی کو روبرو رکھ کر
جوکتا سے چرخا کاتتا ہے۔
رنگیلے خوابوں کا کارخانہ لالٹین سے چلاتا ہے۔
ببرا پھر
اسی وقت منڈیر پر متوالے گیت سننے آتا ہے۔
” ببرا جولاہے کی خیر میں ہْو ہْو کی صدائیں لگاتا
منڈیر پر بھید بھری نیند سو جاتا ہے”۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے