یہ بھید ہے
یا کوئی راز آج تک نہیں کھلا
سرگوشی کرتے
دھند میں لپٹے منظر
میرے ساتھ تنہائی اوڑھے
بستر کی شکنوں سے
الجھے رہتے ہیں وقت کی دہلیزپر
بوسیدہ مناظر کو ایک پورٹریٹ میں سجائے
وقت کی قید میں گری زندگی کو
تمہارے نام منسوب کرنے
اس کی آلودگی مٹانے
تمہاری اَور نکل پڑتا ہوں
جینے کو ایک قرینہ دینے

مصلحت پاؤں میں چھبنے والے کانٹے کی طرح
اپنے معنی تلاش کرتی جاتی ہے
میں اکثر تمہاری طرف آتے ہوئے
راستوں سے الجھ جاتا ہوں
اپنا آپ بھول جاتا ہوں

یہ کوئی بھید ہے
یا راز نہیں کھلتا

ایک مدہوشی چھا جاتی ہے
نیند کے خمار میں
شکنوں کو سنوارتے ہوئے
نیند کی وادی میں کھوجاتا ہوں

سونے اور جاگنے کے درمیاں
زندگی کا وقفہ ہوجاتا ہے۔۔۔!!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے