کب کسی سنجیدہ بلوچ نے یہ دعویٰ کیا کہ بلوچ کبھی کسی کے غلام نہ رہے۔ یا یہ کہ بلوچ قوم کبھی بھی کسی بیرونی طاقت سے تسخیر نہ ہوئی؟۔

اصل بات یہ ہے کہ ہم دنیا کی دیگر قوموں کی طرح زندہ لوگ رہے ہیں۔ ہم پہ حملے بھی ہوتے رہے ہیں، ہم پہ قبضے بھی ہوتے رہے ہیں،ہم ٹکڑوں میں کبھی ایک سلطنت سے نتھی رہے، کبھی دوسری سے۔ہم بھی کبھی غربت میں، اور کبھی کبھی مستی میں کسی کی فصل میں اپنے مویشی چھوڑتے رہے ہیں ………… اوریہ سب فخر کی باتیں نہیں ہیں۔

جس بات پہ فخر کرنا چاہیے وہ یہ ہے، کہ زورآوروں سے ہماری زبردستی والی یہ نتھی گیری ہمیشہ بہت ہی کمزور اور بہت ڈھیلی ڈھالی تھی۔ اور فخر کی دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے قابض کو امن سے رہنے کبھی نہ دیا۔ ہم جنون کی حد تک اپنی آزادی سے محبت میں، قبضہ گروں سے مستقل لڑتے رہے ہیں۔ مزاحمت کا شعلہ بلوچستان میں کبھی نہ بجھا۔ محض اِس پہاڑ سے اُس پہاڑ اور اِس موسم سے اُس موسم میں وہ منتقل ہوتا رہا۔فخر کی تیسری بات یہ ہے کہ اب سب کو سمجھ آچکا کہ ہم احترام، برادری اور برابری کے ساتھ رہ سکتے ہیں،طاقت کے زور پہ نہیں۔۔۔۔۔بس،بلوچ پالتو نہیں بن سکتا۔

نوجوان نسل کو ایک طرف ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے قصہ گوؤں کا خیال رکھے۔مگر یہ بھی سخت ضروری ہے کہ وہ ماضی کو کھلی آنکھوں سے، بصیر آنکھوں سے دیکھے۔ کیونکہ ماضی سے اندھے لوگ،مستقبل میں نابینائی ہی میں داخل ہوتے ہیں۔اور یہ حتمی بات ہے کہ بلوچ مطالعہ اورشعور میں نا بینا لوگوں کو اپنا مستقبل کبھی نہ دیں گے۔(………… اور سیاسی قیادت میں بھی!!)۔

انگریز کو غلط طور پرعقل مند، منصوبہ بند، زیرک،کامیاب عوامی نباض، دوراندیش، اور کبھی کبھی تو ولی اللہ تک مشہور کردیا گیا ہے۔ مگر ہمارے ہاں تو اُن سب کے بارے میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ انہیں یہ تک پتہ نہ تھا کہ گیدڑ، جوشام کو آبادی کے قریب با جماعت آوازیں نکالتے ہیں، یہ اُن کی خصلت و عادت ہے، یا انھیں بھوک لگی ہوئی ہے۔………… اور پھر صاحب کے حکم پہ اُن کے لیے جاکر غلہ اور خوراک رکھا گیاتھا۔

ایک بڑی بات البتہ یہ ہے کہ جس وقت بلوچوں کا یورپ سے مزاحمت کار کے بطورتعلق بنا تو یورپ کے اندر سائنس و چرچ کی چپقلش میں (سیکڑوں سائنس دانوں کو اذیتیں دے دے کر ماردینے کے بعد)بالآخر سائنس،چرچ کو شکست دے چکی تھی۔ اب حتمی طور پر وہاں عقل و خرد، تحقیق و ریسرچ اور سائنس و ٹکنالوجی کی حکمرانی قائم ہوچکی تھی۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سائنس کی آزادی نے روشن فکری کو جتنی ترقی دی، بہ یک وقت وہاں ٹکنالوجی شیطان صفتوں کے ہاتھ بھی لگی۔ یوں یورپ باؤلے سفاک لٹیرے کے بطور ”بحری سواری“اور ”بندوق و بارود“کی اپنی برتر ٹکنالوجی کے کندھوں پہ سوارہمارے ساحلوں پہ لُوٹ مار اور آتش زنی میں مصروف ہوگیا۔یہیں ہم نے دیکھا کہ سائنس اور ٹکنالوجی اگر ایک طرف پوری انسانیت کے لیے نعمت ہیں، تو دوسری طرف یہ عوام الناس پر استحصالی شکنجوں کو ناقابلِ تسخیر بناتے ہیں۔

19ویں صدی میں انگریز سامراج وہ حرافہ رنڈی تھی جس کی بوٹی بوٹی میں حرام سمایا ہوا تھا، جو چہرے اور روح کی قباحت کو چھپانے کے لیے سینکڑوں رنگ روپ اور لباس بدلتی تھی، جس کے رہزن یار اس کے کوٹھے پر دھماچوکڑی مچاتے تھے اور اپنی لوٹ کھسوٹ کا مال بانٹتے اور لٹاتے تھے، جن کو بے بس انسان اپنی گلی میں کھڑے ہو کر اپنی اپنی فطرت کے مطابق حسرت یا نفرت سے دیکھتے تھے۔ اِن میں سے کچھ نے چاہا کہ اس ڈائن کے منہ کو داغیں، مگر انہیں زنجیروں سے قید کر دیا گیا یا پھر گولیوں سے اڑا دیا گیا۔(1)

چنانچہ لٹیرا، انسانی آبادیوں کے ریوڑوں میں گھس چکاتھا۔ وہ بے دردی سے لوٹتا گیا اور غنیمت کا مال مغرب منتقل کرتا گیا۔ ہمارا مشرق کا سماج اتھل پتھل ہوتا گیا………… بلوچ نے صرف ایک انسانی خصلت برقرار رکھی: سامراجی حملہ آور کی مزاحمت۔ اس کام میں ہم برباد بھی بہت ہوئے مگر تفاخر کا ایک ٹھنڈا جھونکا دائمی طور پرہماری آنے والی نسلوں کے دلوں کو مسرت سے بھرتا رہے گا………… ”ہم انسان ہیں“۔

ہاں، انگریز کے آنے سے ریلوے آئی، انگلش زبان آئی اور تار،ٹیلی گراف اور ڈاک خانہ آیا۔ جدید ریاست کا نمونہ آیا۔انگریز نے ہماری کلاسیکل شاعری اکٹھی کرکے چھاپ دی۔ اس نے بارہ جلدوں پر مبنی بلوچستان گزٹیئر لکھے اورچھا پے۔بے شمار مواد دیا جس سے ہم اپنی تاریخ کی گم کڑیاں ملاتے رہے………… مگر کس قیمت پہ، یہ ہم جانتے ہیں یا ہمارا مہربان خدا جانتا ہے۔

اس سامراجیت کا اثر ساری دنیا پر پڑا۔معاشی طور پر بھی، مگر ساتھ میں سیاسی طور پہ بھی۔1848-49 میں انقلابی تحریکیں زور پکڑتی گئیں۔ ایشیائی ملکوں کی عوامی انقلابی تحریکیں مضبوط تر ہوتی گئیں، قطع نظر اس بحث کے کہ کون کس پر اثرات ڈال رہا تھا۔ یورپ اور امریکہ میں قومی بورژواتحریکیں بھی زور پکڑتی گئیں۔

سب سے دلچسپ بات یہ ہورہی تھی کہ یورپی (انگریز) مزدوروں کا بڑھتا ہو اسارا معیارِ زندگی نوآبادیوں کے محنت کشوں کو دی جانے والی ہولناک حد تک کم اُجرت کے طفیل تھا۔

ہم صدیوں سے یکساں طور پر زندگی بسر کررہے تھے۔ ہم کھاتے تھے، پیتے تھے، بچے پیدا کرتے تھے اور پوتا اسی طرح زمین پر کام کرتا تھا جس طرح دادا کرچکا تھا۔ انقلابات بے شک بہت آئے مگر وہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے سوا کچھ نہ تھے۔مگر جب انگریزوں نے قدم جمائے اور اپنی مصنوعات کو پھیلایا توہمارا ذریعہ ِ معاش بھی ہم سے چھن گیا اور ہماری پائیدار زندگی ہل کر رہ گئی………… انگریزوں اور مشینوں نے ہمیں (جدید) تمدن کے دائرے میں گھسیٹ لیا۔

ہماری مزاحمت مستقبل کے لیے ایک ایسا سنگ ِ میل تھی جو ہمیشہ بیرونی حملہ آور کے جبڑے میں ہاتھ ڈالنے کی ہمت عطا کرتی رہی۔ خواہ غنیم ہمیں منہ دھونا سکھانے کے بہانے آیا، خواہ ہماری آخرت سنوارنے کے سرٹیفیکیٹ اپنی گردن پہ اٹھائے آیا، یا خواہ ہمیں سڑکیں سکول عطا فرمانے آیا۔

ماضی بعید سے تسلسل میں چلتی بلوچ کی حالیہ تین صدیوں پر مشتمل مزاحمتی تاریخ اگر ایک طرف خون، لاشوں آہوں، تباہیوں، اورسماجی ارتقا و ترقی پر لگی بریکوں سے لتھڑی ہوئی ہے تو دوسری طرف وطن دوستی، مزاحمت، اورظالم کے خلاف ڈٹ جانے کی خصوصیات سے مزین ہے۔ بلوچستان اپنی جغرافیائی دولت کے دفاع میں خود بھی برباد ہوا،اور اُس کے بیٹے بھی غاروں کے سماج سے آگے نہ بڑھے۔ مستقبل بھی شاید اُسی شاہراہ کا ہے۔حملہ آور شکل، زبان اور مذہب بدل بدل کر آئیں گے مگر بلوچستان کی سرزمین اور اُس کے باسی یہیں اُن سے لڑتے رہیں گے۔ہمارے اوپر مزاحمتی جنگ کا دیوتا باچھیں پھیلائے منڈلاتا ہی رہے گا………… مستقبل بعید تک۔

کون جانے انجام کیا ہو۔ہماری معدنی اور سمندری دولت اور ہمارا محل وقوع ہم سے کب تک، اور کیا کیا خراج مانگتے رہیں گے۔ لیکن حتمی ہے کہ بلوچ آباواجداد کی راہ پر ہی چلے گا۔ یہ بہت ہی طاقت ور معاشی جغرافیائی اسباب انسانی خصائل و اخلاقیات و روایات سے مل کر انسان سے اپنی مرضی ہی کرواتے رہیں گے۔ہم بہت دیر تک بے آرام، مگر باوقاررکھے جائیں گے۔

 

ریفرنسز

۔1شیخ ایاز۔دنیا ساری خواب۔2010۔محکمہ ثقافت، حکومت سندھ۔ صفحہ223۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے