(گورکی کی نانی کی سنائی گئیں روسی  لوک کہانیوں سے ایک انتخاب)

ایک راہب تھا۔اپنے آپ کو روشنی کا مینار سمجھتا تھا۔وہ سمجھتا تھا کہ وہ کسی پادری اور زار سے کہیں بڑھ کر عقل مند  ہے۔”مجھ سا  سیانا  اور کوئی بھی نہیں سارے مورکھ ہیں۔۔اور سوداگر؟ ‘اوہو! وہ تو میری گرد کو بھی پہنچتے”۔ راہب نخوت سے جواب دیتا۔مور کے چوزے کی طرح مٹکتا پھرتا۔اس کی آنکھیں بڈھے الو کی طرح نکلی رہتیں۔ پڑوسیوں کو صبح سے شام تک سبق پڑھاتا رہتا۔ان کو عقل سکھاتا رہتا۔اس کی نظر میں کوئی چیز بھی ٹھیک نہیں تھی۔اگر کبھی بگھی میں سفر کرنا پڑ جائے تو ناک بھوں چڑھائے کہ یہ چرخ چُوں,چرخ چُوں کیوں کرتی ہے رے!۔ سیب کھایا تو۔۔۔لو یہ تو میٹھا ہی نہیں۔دھوپ میں بیٹھا تو چلایا۔۔۔باپ رے بڑی گرمی ہے۔

ہر چیز کو چبھتی نظروں سے دیکھتا اور ایسے ہی اپنی سی ہانکتا چلا جاتا۔” ارے یہ چیز میں بھی بنا سکتا ہوں،کہیں اچھی،بہت شاندار،مگر میں اپنا وقت کاہے کو برباد کروں؟

ایک دن شیطان آن دھمکے اور بولے: آپ جناب یہاں تو بڑی تکلیف میں ہیں۔چلیے ہمارے ساتھ، ہمارے ہاں دوزخ میں مہمان بنیے۔جنم کی آگ تو لبالب پانی سے بھرے ان گنت کنوؤں کو بھی چاٹ جائے اور تشنہ  رہے۔

ابھی  راہب  نے سر پر ٹوپی  نہیں جمائی تھی کہ دو شیطان اس کے کندھوں پہ جم گئے۔تیسرے شیطان نے اسے پنجوں میں دبوچ لیا۔چونڈیوں دانتوں،ناخنوں  سے خوب کترا، نوچا، کاٹا،گھسیٹا۔ پھر اٹھایا اور دوزخ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں لا پٹخا۔اچھا ایو ستیگن! کہو کیسے ہو؟ اب خوش ہو!!۔

راہب کباب کی طرح بھننے لگا اور اس نے آنکھیں نکالیں۔اب بھی اس کا انداز وہی عاقلانہ تھا۔اس نے اپنے ہونٹ حقارت سے سکیڑے اور بولا:” دوزخ کی آگ سے دھواں بہت اٹھتا ہے۔’

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے