ڈاکٹرعباس براہمانی خطہئ ڈیرہ غازی خان کے ایک ذہین اورفطین ادیب وشاعر ہیں۔ وہ اُردوادب کے حوالے سے ملکی سطح کی شناخت رکھتے ہیں جن کی ادبی کاوشیں ملکی ا وربین لاقوامی اہمیت کی حامل ہیں۔ان کاعلمی وادبی کام مختلف الجہت ہے۔ان کے ادبی نگارخانہ کواگر دیکھاجائے تواس میں کئی شوخ رنگ:سفرنامہ،تذکرہئ حیات،طنزومزاح، عالمی سیاست وتاریخ،کالم نگاری اورشاعری نظرآتے ہیں۔ ان کی جولان گاہِ رہوارِقلم کا میدان زیادہ تر نثرہے۔ انہوں نے چھ اصناف ادب میں طبع آزمائی کی اور ان کی اب تک نوکتابیں: کیلاش کتھا (سفرنامہ)،میرا سندھو سائیں (سفر نامہ)،ایورسٹ کے دیس میں (سفر نامہ)، برف دریاؤں کے سفر (سفر نامہ)،طلسماتی وادیاں (سفرنامہ)، غالب کے زمانے کی دلی (تذکرہئ حیات وتحقیق)،گریٹ گیم(جنوبی ایشیا کی برطانوی تاریخ۔تحقیق)، احمقوں کی جنت(طنزو مزاح)اور”صحرا میں گلاب (اُردو دانش مندانہ نکات مع جاٹکی/سرائیکی ترجمہ وشاعری)“ شائع ہوچکی ہیں۔ گویا پانچ سفر نامے، ایک تذکر ہئ حیاتِ غالب، ایک سیاسیاتِ ایشیا،ایک طنزو مزاح اور ایک اُردو جاٹکی/سرائیکی نثروشاعری کی تصنیف ہے۔ڈاکٹرعباس کے سفر نامے خطہئ ڈیرہ غازی خان کے اولیں معیاری اُردو سفرناموں میں شمار ہوتے ہیں۔ان کے سفرناموں کا آفاقی منظرجنوبی ایشیاکے اماکن و ممالک بالخصوص شمالی کوہستانی علاقہ جات و گلگت  بلتستان،خیبر پختون خواہ،پنجاب،سندھ، بلوچستان،بنگلہ دیش اورنیپال تک وسیع ہے۔ ان کے سفرنامے ادبیت کا مرقع،جاذب ِنظر،دل چسپ اورپُر کشش ہیں۔ سفر نامہ نگاری ان کی ادبی شناخت کا حوالہ ہے۔ بلوچ،اُردوسفرنامہ نگاروں میں ڈاکٹرعباس سب سے بڑے سفرنامہ نگارنظرآتے ہیں۔ان کے سفر نامے ان کے عہدِ جوانی کے نوشتہ ہیں جن میں جوانی کی شوخی اور جذباتی دورکاعکس جھلکتانظر آتا ہے۔سفرنامے جہاں اپنے عہدکاعکس ہوتے ہیں وہاں مستقبل میں تاریخ کاروپ دھارلیتے ہیں۔ڈاکٹرعباس کے جیتے جاگتے سیاحتی سفر نامے صدرنگ جلووں سے آراستہ وپیراستہ ہیں۔ انہوں نے اپنے سفر ناموں میں اپنے احوالِ سفرکے علاوہ کوہ ساروں،برف زاروں، وادیوں،گھاٹیوں، آب شاروں،گُل زاروں،مرغ زاروں، جھیلوں، دریاؤں، جنگلوں اورسبزہ زاروں کے فطرتی حسن کونہ صرف الفاظ کے پیکرمیں مجسم کرکے امرکیابلکہ مختلف دیسوں، دیاروں، تہذیبوں، قوموں، زبانوں، ثقافتوں، رواجوں، قدیم آثاروں، ادب، تاریخ، جغرافیہ، سیاست، معیشت، فطرت، مذہب،انسانیت،روزمرہ زندہ دل محفلوں کی نشت و برخاست اوراخلاقی قدروں کی صداقتوں کوموقع محل کے مطابق بیان کرتے ہوئے آنے والے زمانوں کے لیے یادگاربنادیا۔غالبیات کے حوالے سے اُن کی منفرد تصنیف”غالب کے زمانے کی دلی“ خطہ ڈیرہ غازی خان میں غالب پر لکھی جانے میں اولیں معیاری کتابوں میں شمار ہوتی ہے جوغالب کے زمانے میں دلی کی سیربین (Panorama) ہے۔ ان کی پہلی تصنیف کا نام ”صحرامیں گلاب“ہے جس میں دانش مندانہ نکات وغیرہ ہیں۔گویا معنوی کے اعتبار سے وہ ڈیرہ غازی خان جیسے پس ماندہ علاقے(صحرا) میں گلاب کھلانے کے آرزومندہیں مگردرحقیقت اس صحرا میں ”گلاب“ ڈاکٹرعباس براہمانی، خود ہیں جنہوں نے اس خطے میں ادب کی یادگار کتابیں رقم کرکے اس سر زمین کی ادبی فضاکوفکری روشن خیالی کی خوش بوسے معطرکیاہے۔

ادب، چوں کہ متنوع علوم کاگل زارہوتاہے جس میں رنگا رنگ اصناف کے پھول کھلتے ہیں۔شاعری،نثر، فکشن،سفرنامہ، مزاح، تحقیق و تنقید؛ اس کے چمن گوشے ہیں۔تحقیق اورتنقیدکاتعلق عموماً گُل اور خارکا ساہوتاہے لیکن ان میں جب تخلیقی عمل کاجوہر شامل ہوتاہے توان کی افادیت کوچارچاندلگ جاتے ہیں۔ادبی تحقیق ہرزبان کی ترقی کی بنیاد ہے۔ برصغیرمیں اُردوادب اس حوالے سے خاصا ثروت مندہے۔ ادبی تحقیق میں ”محقق“چوں کہ فی نفسہٖ ایک نقادبھی ہوتاہے،اس لیے وہ ادب پارے کی خوب صورتیوں اورکم زوریوں کوتشکیک کی نگاہ سے دیکھتا ہے؛ ساتھ ہی اپنی عبارت آرائی پربھی تنقیدی نظرمرکوزرکھتا ہے۔گویااسے تحقیق و تنقیدکے دونوں پہلو مد نظررکھنے پڑتے ہیں۔محترمی برکت علی براہمانی، تنقیدی شعور سے آشنامحقق ہیں جس کااندازہ ان کی تصنیف: ”ڈاکٹر عباس براہمانی: حیات،شخصیت اور ادبی خدمات“ سے لگایاجاسکتا ہے۔انہوں نے۳۱۰۲ء میں:”ڈاکٹرمحمدعباس برمانی کی علمی وادبی خدمات“کے موضوع پر، اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور میں ایم فِل کا مقالہ مکمل کیاجوسندی تحقیق کا قابل ذکر حوالہ ہے۔یہ مقالہ چھ ابواب، حاصل کلام اور کتابیات پر مشتمل ہے جسے اب ترامیم واضافوں کے بعد کتابی صورت میں زیورِ طباعت سے آراستہ کیاجارہا ہے۔ اس میں ڈاکٹر عباس براہمانی کی حیات وشخصیت اور ان کی فکری وفنی اور ادبی کاوشوں کا تحقیقی وتنقیدی اورتجزیاتی احاطہ کیاگیا ہے۔برکت علی براہمانی ڈیرہ غازی خان سے 24کلو میٹرجنوب میں ڈیرہ غازی خان کراچی شاہ راہ پر واقع ایک چاہ،نزدبستی جام کے سکونتی ہیں۔وہ ڈاکٹرعباس براہمانی کے ہم قبیلہ اور پیشے کے اعتبارسے معلم ہیں۔ان کی پیدائش ۳نومبر۹۷۹۱ء کوغلام حسین بن کریم بخش بن میرمحمد خان براہمانی بلوچ کے ہاں بستی چاہ مجنوں والا میں ہوئی۔ بستی جام سے ابتدائی اورمڈل کی تعلیم حاصل کی۔ ثانوی اوراعلیٰ ثانوی امتحانات بالترتیب ۵۹۹۱ء اور ۷۹۹۱ء میں گورنمنٹ ہائیرسیکنڈری سکول کوٹ چُھٹہ سے پاس کیے۔ بی اے اورایم اے کے امتحانات 1999ء اور2002 میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ڈیرہ غازی خان / بہاء الدین زکریایونی ورسٹی ملتان سے پاس کیے۔2004 میں بہ طور پرائیویٹ امیدوار علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آبادسے بی ایڈ کیا۔ 2008 میں کورس آف کمپیوٹرایپلی کیشن (سی سی اے)اور2011 میں عربک ٹیچر کورس(اے ٹی سی)کے ڈپلومے حاصل کیے۔۴۱۰۲ء میں پیشہئ پیغمبری سے منسلک ہوکربہ طور ایلیمنٹری سکول ٹیچر(ای ایس ٹی) سرکاری ملازمت کاآغازکیا اورفی الوقت گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول کوٹ چھٹہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔برکت علی براہمانی جب ایم فل کررہے تھے تو ڈیرہ غازی خان میں آکر،راقم سے ملے۔انہوں نے اپنے موضوع ِ تحقیق سے آگاہ کیامگراس ملاقات میں راقم کوایسا باورنہ ہواکہ دوردرازنظرانداز کردہ دیہات کاایک طالب علم اس قدر محنت کرکے، موضوع سے انصاف کرکے کوئی شان دار مقالہ لکھ پائے گا۔تاہم اب اس تصنیف کی وقعت اورعلمیت کااندازہ قارئین، اس کے مطالعہ سے کرسکیں گے کہ ڈاکٹرعباس براہمانی کی حیات و شخصیت کاتعارف اور ادبی خدمات کو کس دل چسپ،معلوماتی اورمربوط علمی پیرایہ میں پیش کیاگیاہے۔

سفرنامہ چوں کہ دل پذیرصنف ادب ہے،اس لیے برکت علی نے ڈاکٹرعباس کے سفرناموں کے زاویہئ نظر،سفری مشاہدات اور احساسات کا تجزیہ اس جامعیت اورخوب صورتی کے ساتھ پیش کیاکہ قاری کے دل میں ڈاکٹر عباس کے سفرنامے پڑھنے کاشوق ازخود پیداہو جاتا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹرعباس براہمانی کی تمام کتب کاکم وبیش تعارف اور تحقیقی و تنقیدی تجزیہ پیش کیا جسے کسی اچھے محقق کااچھاتحقیقی جائزہ (Appraisal) کہاجا سکتاہے۔وہ ڈاکٹرعباس کے اردو مضامین اور کالموں کو بھی جزئیاتی حدتک زیربحث لائے اوران کی فکری، فنی اورادبی جہات و افادیت کواجاگرکیا۔ انہوں نے تحقیق و تنقیدکے ساتھ تخلیقی پہلوبھی شامل کیے جو تحقیق کی عمدہ مثال ہیں۔اس طرح شستہ، شائستہ، برجستہ اور دل پذیر اسلوبِ نوشت کی مظہراس کتاب کو ڈاکٹرعباس کے اسلوبِ نوشت،ان کے ادبی رنگوں اور اصنافِ ادب سے شناسائی کے حوالے سے نمائندہ تصنیف کہاجاسکتا ہے۔ یہ تصنیف جنوبی پنجاب بالخصوص خطہ ڈیرہ غازی خان میں اسلوبِ تحقیق کے ضمن میں ایک اہم علمی پیش رفت ہے اور یہ اس خطے میں واحدتذکرہئ حیات ہے جوجدید تحقیق کے اصولوں کومدنظررکھ کرلکھا گیاہے۔ہرموضوع کے آخرمیں حوالے پیش کیے گئے جو مروجہ اُردو طریقہئ حوالہ پرہیں۔ بلاشبہ،مقامی شخصیات پرتحقیق، نظراندازکردہ خطوں کی علمی ضرورت ہے جس کے پیش نظربرکت علی براہمانی نے نہ صرف ڈاکٹرعباس براہمانی کی حیات وشخصیت اورادبی خدمات سے شناخت کرائی بل کہ سرزمینِ ڈیرہ غازی خان جیسے پس ماندہ خطے کی شخصیات پر آئندہ تحقیق کی راہ بھی ہم وار کی۔یہ تصنیف خودشناسی، وسیب شناسی اوروطن دوستی کااظہاریہ ہے جس میں براہمانی بلوچ قبیلہ کی بلوچی زبان وادب کے علاوہ،علمی اور اردوادبی خدمات واضح ہوئیں۔ انہوں نے اس خطے میں مقامی شخصی تحقیق کی جوشمع روشن کی، امید ہے آئندہ اس سے مزید مشعلیں روشن ہوں گی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے