جب زْلف ِ یار شیخ کی دستار پر گری

برق ِ بلاَ سی صْورت ِ ناچار پر گری

 

منصور یاد آئے جو جَذب ِ دْروں کے ساتھ

اِک برق بن کے میری نظر دار پر گری

 

دوچَند میں خرید کے یْوسف کو لے چلی

ان کی نظر نہ اپنے خریدار پر گری

 

دنیا میں امن کیسے ہو یہ سوچتا رہا

زخمی سی ایک فاختہ دیوار پر گری

 

ایسی ادا سے جنگ میں اس کی نظر لگی

چھوٹی جو ڈھال ہاتھ سے سالار پر گری

 

قسمت کٹی پتنگ کی صورت بنی ہے اب

اٹکی ہے پیڑ میں کبھی دیوار پر گری

 

تَریَاق کا خیال اب آیا فِدَا کو جب

اس کی سِیاہ زْلف جو رْخسار پر گری

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے