جاہ و جلال, دام و درم اور کتنی دیر

ریگِ رواں پہ نقش قدم اور کتنی دیر

اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف

گرد و غبار عہدِ ستم اور کتنی دیر

حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیان

یہ تمکنت، یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر

پل بھر میں ہو رہے گا حسابِ نبود و بود

پیچ و خم و وجود و عدم اور کتنی دیر

دامن کے سارے چاک، گریباں کے سارے چاک

ہو بھی گئے بہم تو بہم اور کتنی دیر

شام آ رہی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا

تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے